حضرت امام صادق (ع) کی شہادت کی مناسبت پر حضرت آیة اللہ العظمی صانعی مدظلہ العالی کے بیانات
حضرت امام صادق علیہ السلام کی شھادت کی مناسب پر حضرت آیة اللہ العظمی صانعی مدظلہ العالی کے بیانات جو آپ نے اپنے درس خارج کے اختتام پر مدرسہ فیضیہ میں بیان فرمائے.
«اَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيم»
«بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم»
آج پچیس شوال کا دن ہے، حضرت امام صادق علیہ السلام کی شھادت کا دن ہے، آپ کی زندگی کے حالات اور آپ کی خصوصیات، تاریخی اور روائی اور فقہی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں. اگر آپ اصول کافی کو اٹھا کر دیکھیں، ائمہ علیھم السلام کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں کو ذکر کیا ہے، اسی طرح شہید (قدس سرہ الشریف) نے اپنی کتاب «دروس» اور صاحب حدائق نے اپنی کتاب «حدائق» کی کتاب الحج ابواب المزار میں اس کا تذکرہ کیا ہے. اور قابل ذکر یہ کہ امام صادق علیہ السلام کو دفن کرنے کی پوری تفصیل اس میں بیان ہوئی ہے. دفن کے بارے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو کفن دینے کے لئے پانچ کپڑے استعمال کیے ہیں.
امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ان کپڑوں میں سے ایک وہ عمامہ ہے جو «کان لعلی ابن الحسین (علیہ السلام» امام زین العابدین علیہ السلام کی یادگار تھا. حضرت امام صادق علیہ السلام کے جسم اطہر کو اس عمامہ کے ساتھ بھی کفن دیا گیا. اب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس قسم کا کفن دے کر، معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اس کی کیا تفسیر اور تحلیل ہے؟ اس کا تعلق خود افراد سے ہے کہ خود سوچیں اور اس کی تحلیل کر کے حضرت امام موسی علیہ السلام کے اس فعل کی دلالت التزامیہ معلوم کریں.
شاید حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے اس لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے عمامے سے، امام صادق علیہ السلام کا کفن بنایا ہو تاکہ سب کو یہ بتائیں کہ اگر امام صادق علیہ السلام کے لئے بھی، حضرت امام حسین علیہ السلام کے جیسے حالات پیش آتے، تو وہ بھی وہی کرتے جو امام حسین علیہ السلام نے کیا ہے، یعنی کبھی یہ نہ سوچنا کہ امام صادق علیہ السلام نے جو اپنی پوری عمر احکام کو بیان کرنے میں صرف کر دئے صرف اس لئے تھا کیونکہ یہ آسان کام تھا، ہرگز ایسا نہیں ہے.
اگر شرائط فراہم ہوتیںتو امام صادق علیہ السلام وہی حضرت امام حسین علیہ السلام ہوتے. کیونکہ «کلھم نور واحد، طاب و طھر بعض من بعض خلقکم اللہ انواراً» سب معصومین انوار ہیں، یہ نور ہیں، یہ چاندنی ہیں، حقیقت ہیں. نور اور حقیقت میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں ہے. «فجعلکم فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمه» اس بنا پر شاید حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کام کو آسان ہونے کی لئے انتخاب نہیں کیا، ہرگز ایسا نہیں. بلکہ امام صادق علیہ السلام نے اس کام کو اپنا فرض سمجھ کر انجام دیا ہے یعنی اب ضرورت اس چیز کی تھی کہ وحی امام صادق کے دروس کی شکل میں بیان ہونے کی ضرورت تھی، اور امام صادق علیہ السلام کے شاگرد بھی ان دروس کو قلمبند کریں اور سینہ بہ سینہ اور ہاتھوں ہاتھ آج تک پہونچے. جو آجکل دیکھ رہے ہیں کہ تشیع پوری دنیا میں واقعی اور حقیقی طور پر، توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے.
کیونکہ تشیع کی اصل اور اس کی اساس حب اور عشق اور محبت ہے. تشیع کی بنیاد خشونت، ظلم و ستم اور جنایت سے دوری پر رکھی گئی ہے. کیونکہ (معصومین اور ائمہ علیھم السلام سب) نور ہیں، خیر محض ہیں، انسانیت کو دوسری جنگ عظیم کے بعد جنگ کی تباہکاریوں کا اندازہ ہو گیا ہے. انسان کو معلوم ہو گیا ہے کہ خشونت بری چیز ہے. انسان سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی دل آزاری کرنا بری بات ہے. انسان کو پتہ ہے کہ اذیت کرنا بری چیز ہے. انسان کو سمجھ آتی ہے کہ عدالت اچھی چیز ہے. انسان سمجھتا ہے کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو ضائع نہ کرنا اچھا ہے. آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اصول تشیع میں آئے ہوئے ہیں.
یہ سب اصول حضرت امیرالمؤمنین علیہ افضل صلوات المصلین کے نہج البلاغہ میں آئے ہوئے ہیں. یہ سب ائمہ معصومین علیہھم السلام کے زندگی کے اصول ہیں. جب آپ «زیارت جامعہ» جس کو ائمہ معصومین علیھم السلام میں سے ہر ایک کی زیارت کے لئے پڑھا جا سکتا، کو ملاحظہ فرمائیں، اس زیارتنامے میں سب خوبیاں بیان ہوئی ہیں تا کہ دوسرے ان خوبیوں سے سبق حاصل کریں. «ان ذکر الخیر کنتم اولہ و اصلہ و فرعہ و معدنہ و مأواہ و منتھاہ» (خوبیوں اور نیکیوں کی جڑ آپ ہیں، نیکیوں کے شاخ و برگ آپ ہیں، تمام نیکیاں آپ سے پھوٹتی ہیں» سب نیکیاں حضرت فاطمہ زھراء (سلام اللہ علیھا) کے چھوٹے سے گھر سے پھوٹتی ہیں، گیارہ امام، آپ کی نسل سے ہیں، حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام آپ کے خاوند ہیں.
جب آپ زیارت جامعہ کو پڑھتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ اس سے سبق حاصل کریں، جب ائمہ معصومین علیھم السلام سے محبت ہو تو آپ کے زندگی کے اصولوں سے بھی محبت ہوگی، سب سے زیادہ متین زیارتنامہ یہی «زیارت جامعہ کبیرہ» ہے. میں نے کئی بار آپ کی خدمت میں عرض کی ہے، کیونکہ میں خود اس طرح عمل کرتا آیا ہوں، اس لئے آپ کی خدمت میں بھی دوستانہ اور برادرانہ طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زیارت جامعہ کبیرہ کی تلاوت کو مت بھولئے. ہمیں اجازت دی گئی ہے کہ دور سے بھی زیارت کو پڑھا جا سکتا ہے.
ہمیں زیارت جامعہ کو پڑھنا چاہئے اور اپنے آپ کو ائمہ معصومین علیھم السلام کے طریق پر گامزن کرنا چاہئے. آپ پوری زیارت جامعہ میں کہاں ایک برائی ڈھونڈھ سکتے ہیں؟ زیارت جامعہ کا لفظ لفظ کو دیکھا جائے تو فضیلت سے بھرا ہوا ہے، انسانیت ہے، بڑا پن ہے. «بکم فتح اللہ و بکم یختم و بکم ینزل الغیث و بکم یمسک السماء ان تقع علی الارض الا باذنہ و بکم ینفس الھم و بکم یکشف الضر». اس میں قابل اعتراض چیز کون سی ہے؟ تمام دنیا کو انسان کے لئے خلق کیا گیا ہے، آپ اس کے قائل ہیں کہ تمام عالم انسان کے لئے خلق کیا گیا ہے. تو یہ پورا جہان انسان کامل کے لئے خلق کیا گیا ہے. «بکم فتح اللہ» جہان کو ائمہ معصومین (علیھم السلام) کے لئے کھولا گیا ہے. جہان کو آپ کے ذریعہ بند کیا جائے گا. «بکم فتح اللہ» سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم عالم مادہ اور طبیعت کے منکر ہیں، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تمام دنیا آپ کے لئے بنائی گئی ہے اور یہ بالکل صحیح ہے.
تمام عالم کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بنایا گیا ہے. جہان کو انسان کامل کے لئے خلق کیا گیا ہے. جہان کو ایک ایسے انسان کے لئے بنایا گیا ہے جو اپنی تبلیغ اور ہدایت، اور لوگوں کو رہنمائی کرنے کے دوران لوگوں کے لئے اپنے دل میں ہمدردی رکھتا ہے، اتنی عبادت کرتا ہے، اتنے صدمات کو برداشت کرتا ہے تاکہ لوگوں کو اس زمانے کے معاشرے میں جاری وحشی اور بربریت کے رسم و رواج سے نجات دلا سکے. ان کو نجات دلانے کے لئے آیا ہوا ہے لیکن آگے سے اس کو تکلیفیں دی جاتی ہیں. وہ آ کر کہتا ہے کہ قدرت مطلق کی عبادت کرو، عدل مطلق کی عبادت کرو. وہ کہتا ہے کہ ایسی قدرت سے اپنا ناطہ جوڑو جو «لا مؤثر فی الوجود الا اللہ» ہے، سب چیز اس کے ید قدرت میں ہیں. بت اور دوسری طاقتوں کے آگے مت جھکو. بت اور پتھر اور پتھر سے بدتر انسانوں کے آگے کبھی نہ جھکو! «و ھم کالحجارة او قسوة» ایسے انسانوں کے سامنے کبھی نہ جھکو جن کے دلوں میں عطوفت نہیں ہے اور کبھی بھی دوسروں سے ہمدردی نہیں کرتے. آپس میں اختلاف نہیں کرو. ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیا کرو. ایک دوسرے کی توہین نہ کرو. «قولوا للناس حسناً»، «لقد کرمنا بنی آدم» قرآن کی نظر میں سب انسان محترم ہیں. چاہے الھی ہوں یا غیر الہی، چاہے عیسائی ہو یا یہودی، چاہے زرتشتی ہو یا کیمونسٹ. جو کچھ بھی ہو بالآخر انسان تو ہے ہی، اس لئے محترم بھی ہے. «قولوا للناس حسناً» دوسروں سے اچھے سلوک سے پیش آؤ. پوری دنیا میں آپ کو کہاں سے ایسے مطالب مل سکتیں ہیں؟
ہاں البتہ اگر کوئی آپ کے ساتھ دشمنی کرتا ہے، آپ کے خلاف تبلیغ کرتا ہے، آپ کی مقدسات کے خلاف بولتا ہے، تو اس صورت میں اس کے خلاف ڈٹ کر اپنا دفاع کرنا ہو گا. «من لا یحضرہ الفقیہ» کی کتاب المیراث کو ملاحظہ فرمائیے، (دعا کیجئے کہ اللہ تعالی کی توفیقات سے ہم تحریر الوسیلہ کی کتاب المیراث کی شرح کو چھپوا سکیں) وہاں پر جہاں کہا گیا ہے کہ کافر ارث سے محروم ہے، شیخ صدوق (قدس سرہ الشریف) جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اخباری تھے - البتہ اخباری، اپنے صحیح معنوں میں- آپ فرماتے ہیں یہ جو کہا جاتا ہے کہ کافر ارث سے محروم ہو جاتا ہے، یہ اس کی دشمنی اور عناد اور ضد کی وجہ سے ہے، ان کی اسلام سے دشمنی کی وجہ سے ہے.
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام غیر مسلمانوں کو ارث سے محروم نہیں سمجھا جا سکتا. شیخ صدوق کی عبارت کا یہی مطلب ہے. آپ قرآن کریم کی تمام آیات کا غور سے مطالعہ فرمائیے، تمام موارد میں کفر کی مذمت کی گئی ہے. الحاد کی مذمت کی گئی ہے. کفر و عذاب کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا. یعنی کہ جان بوجھ کر، مقدسات کے خلاف بولنا، جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مقدسات کی توہیں کر رہا ہو، سوچ سمجھ کر یہ نہیں چاہتا ہو کہ لوگ اسلام کی طرف رغبت نہ کریں، قرآن میں تمام جگھوں پر اس قسم کے آدمی کے بارے میں بات ہوئی ہے. اسلام نے کبھی بھی قاصر لوگ اور وہ جو فکری طور پر مستضعف ہیں، ان کی مذمت نہیں کی ہے.
ایسے انسان جن کی سوچ اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہے لیکن اپنی حدود کے اندر چل رہا ہے، کیا ایسے شخص کی توہیں کرنا جائز ہے؟ حتی کہ قرآن تو حیوانات کی بھی توہین نہیں کرتا. مجھے قرآن میں کہیں بھی کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں پر حیوانوں کی توہین کی گئی ہو. ہاں البتہ صرف برے انسانوں کو بعض برے حیوانوں سے تشبیہ کی ہے. فرماتا ہے کہ (وہ لوگ) ایسے کتے کی طرح ہیں جو ان کی طرف جانا چاہو تب بھی تم پر حملہ آور ہو جائیں گے اور اگر ان سے بھاگنا چاہو تب بھی تم پر حملہ کر دیں گے. یہی قرآن، اسی حیوان سے تعریف بھی کرتا ہے. «و کلبھم باسط ذراعیہ بالوصید». یہ جو ہیلتھ کے لحاظ سے اور پاکی اور نجاست کے لحاظ سے کتے کے منہ لگے ہوئے برتن کو مٹی سے مانجھنا پڑتا ہے، یہ ایک ہیلتھ کا مسئلہ ہے، یہ الھی حکم ہے، نہ یہ کہ کتے کو سزا دینا چاہتا ہو. کتے کو تو بالکل سزا ہی نہیں دی جا سکتی اور اس کا مطلب کتے کی توہین کرنا بھی نہیں ہے.
وای ہو ہم پر اگر ہم کسی انسان کی توہین کریں. یہ قرآن کریم کی منطق ہے. قرآن میں سے کوئی ایک جگہ دکھا دو جہاں پر انسانوں کی بے احترامی کی گئ ہو. ہاں برے لوگ، برے ہیں. حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی رسالت کے دوران بہت اذیتیں دیتے رہے، آپ کے سر پر خاکستر ڈالتے تھے، لیکن (پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے) کیا فرمایا؟ ٢٣ سال ان لوگوں نے آپ کو اذیت پہنچائی، لیکن ان کے جواب میں فرمایا: «اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون» اگر پوری دنیا کو صرف اس لئے خلق کیا جائے کہ ایک ایسا فرد وجود میں آئے تو، اس کے لائق ہے. یہ ہے «لولاک لما خلقت الافلاک» کا معنی. اور «بکم فتح اللہ و بکم یختم و بکم ینزل الغیث» کا یہی مطلب ہے. یعنی اللہ تعالی کے ارادے سے پورا جہان، تمام نظام خلقت و طبیعت کے علل اور تمام عوامل آپس میں ملے ہیں تا کہ حضرت علی، حضرت زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین جیسے انسان آ سکیں.
زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے «اللہ اکبر» کہنا ہوتا ہے، اس لئے کہ خدا نخواستہ لاعلمی کی وجہ سے کہیں غلطی میں نہ پڑ جائیں. اور سوچیں کہ یہاں پر زیادہ روی ہوئی ہے. حالآنکہ ہمارا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ زیارت جامعہ کبیرہ نے ائمہ معصومین علیھم السلام کے مقام کو حقیقت سے کمتر بیان فرمایا ہے.
ہم امام صادق علیہ السلام کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے. ہم امام صادق کی طرف سے پیش کئے ہوئے انسانی حقوق کو نہیں سمجھ سکتے. اے میرے عزیزو! آئیے آج ایسے اسلام کو معرفی کریں جو انسانی حقوق کا حامی ہے، اسلام کے مثبت پہلوؤں کو پیش کریں. اسلام کے مثبت پہلو بہت زیادہ ہیں. امام صادق علیہ السلام بہت سختیوں سے دچار تھے، بہت مشکلات سے مواجہہ رہا ہے، امام کو شرعی مسئلہ بتانے کی بھی اجازت نہیں تھی. ایسی شخصیت جو ایک مذہب کے رئیس ہیں اور کبھی آپ کے پاس چار ہزار شاگرد ہوتے ہیں وہ بھی مختلف علوم میں، لیکن آپ پر ایسا وقت بھی آ جاتا ہے جو یہ نہیں بتا سکتے کہ ایک ہی محفل میں تین طلاقیں دینا، ایک طلاق ہوتی ہے.
اس مسئلے کو بیان کرنے کا حق نہیں ہے. کیونکہ بعض لوگوں کی طاقت اس چیز کی متحمل نہیں ہے. ہم نے کئی مرتبہ عرض کیا ہے یہ روایت روضہ کافی میں موجود ہے، آپ اسے تلاش کر سکتے ہیں کہ ایک شخص امام صادق علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنے خواب کی تعبیر پوچھی. آپ کے پاس بنی العباس سے تعلق رکھنے والا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ اس سے پوچھ لو. اس نے تعبیر بتائی، وہ شخص جواب لے کر باہر چلا گیا لیکن دوبارہ واپس پلٹ آیا، جب تعبیر بتانے والا شخص چلا گیا تو اس نے عرض کی کہ میں نے آپ سے تعبیر پوچھی تھی، آپ نے اس کے حوالے کر دیا اور اس شخص کی، بتائی ہوئی تعبیر کی تأئید بھی کر دی! جواب میں امام نے فرمایا ہوگا(یہ الفاظ ہمارے ہیں) : آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم کتنی سختیوں میں ہیں، آپ کو تو معلوم نہیں ہے کہ ہمیں خواب کی تعبیر بتانے کا حق بھی نہیں ہے.
آئے اور دیکھئے کہ امام صادق علیہ السلام اجتماعی اور سیاسی مسائل میں کیا کرتے ہیں؟ امام صادق علیہ السلام سے ایک جملہ نقل کیا گیا ہے جو دنیا کی سب تہذیبیں اس میں پائی جاتی ہیں. انسانی زندگی، اور تہذیب سب اس میں چھپی ہوئی ہے.
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «ثلاثة، لایستغنی اھل کل بلد عن ثلاثة، یفزع الیہ فی امر دنیاھم و آخرتھم، فان عدموا ذلک کانوا ھمجا، فقیہ عالم ورع، و امیر خیر و مطاع، طبیب بصیر ثقہ»، اگر سب انسان مہذب طریقے سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہوں، تہذیب کے ساتھ، مسالمت آمیز برتاؤ کے ساتھ، اگر چاہتے ہیں کہ سب لوگ آسودہ زندگی گزار سکیں، تو انسانوں کے کچھ گروہوں کی ضرورت ہے، اگر یہ گروہ معاشرے میں ہونگے تو وہ معاشرہ مہذب کہلائے گا. اگر یہ سب نہ ہوں گے یا ان میں سے بعض نہ ہوں گے تو اس مقدار میں تہذیب کا فقدان ہو گا.
اور ان کی زندگی تہذیب سے دور ہوتی جائے گی. اگر ان میں سے کچھ نہ ہو گا تو تہذیب سے عاری ہوں گے. اگر ان میں سے بعض نہ ہوں گے تو اس مقدار میں وہ تہذیب نہ رکھتے ہوں گے. «امیر خیر مطاع» ایسے حکمران اور ایسی طاقتیں جو معاشرے کی امنیت کو، معاشرے کے اقتصاد کو، معاشرے کی سیاست کو، معاشرے کی آزادی کو، معاشرے کی ہویت اور اسی طرح دسیوں دوسرے امور کی حفاظت کے لئے آئے ہوں، اور طاقت کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہو، ان کو چاہئے کہ لوگوں کے خیرخواہ ہوں، خیر ہوں یعنی لوگوں کے لئے بہت خیرخواہ ہوں، کبھی عوام کے بدخواہ نہ ہوں اور یہ کہ «مُطاع» بھی ہوں یعنی کہ لوگ بھی ان کی اطاعت کریں اور ان کے فرمانبردار ہوں.
یہ جو آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کی آراء کو دیکھا جاتا ہے. کہا جاتا ہے کہ جس نے زیادہ آراء حاصل کی ہوں وہی طاقت کو سنبھالے کیونکہ جس شخص نے زیادہ آراء حاصل کی ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص سے اطاعت کرنے والے زیادہ ہیں. البتہ ابھی بھی یہ راستہ ناقص ہے. اسلام اس سے بھی بالاتر چاہتا ہے. اسلام چاہتا ہے کہ حکمران ایسا فرد ہو جس کو سب پسند کرتے ہوں. حکمران سب مطاع ہونے چاہیں. جب لوگ، اپنے حکمرانوں کو دیکھیں تو اسلام اور قرآن کی تربیت کو یاد کریں اور دنیا کی دوسری ظالم طاقتوں سے بیزار ہو جائیں. آج جو کچھ بھی بشریت نے بیٹھ کر لکھا ہے وہ سب اس لئے ہے کہ حکمرانوں کو اس مرتبے پر پہنچائیں کہ وہ عوام پر ظلم نہ کریں. اور حکمران عوام کے اختیار میں ہوں نہ کہ عوام، حکمرانوں کے چنگل میں گروی بن جائیں. عوام، حکمرانوں پر حاکم رہیں نہ کہ حکمران، عوام پر. یہ سب کچھ صرف اسی ایک جملے میں ہے «امیر خیر مطاع» عوام کے لئے خیرخواہی کرے اور اسی لیے عوام اس کی اطاعت بھی کریں. «عالم فقیہ ورع»، ایسا معاشرہ جس کے پاس یونیورسٹیاں اور خلاق دانشور ہوں، ایسے دانشور جو محقق اور متتبع اور ساتھ متقی بھی ہیں.
ایسے معاشرے کی یونیورسٹیوں کو چاہئے کہ جدید تحقیقات پیش کرنے کے علاوہ، علل کے در پہ بھی ہونا چاہئے اور دینی مدارس کو بھی چاہئے کہ اسی طرح ہوں. یہ حوزہ ہای علمیہ ہیں جو سابقہ بزرگوں اور علماء سلف کی زحمتوں کے باوجود اور اتنے صدمات جو برداشت کئے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بعض بزرگ اپنی وفات کے بعد بھی انھیں اذیت پہنچائی جاتی ہے. شیخ طوسی کی ایک کتاب «نھایة»، آج «جواھر الکلام» کی ٤٢ جلدیں ہو چکی ہیں. بزرگوں کی «کافی» اور «اصول کافی» اور «محاسن» اور «خصال» جو آٹھ جلدیں تھیں، لیکن آج «بحار الانوار» کی ایک سو سے زائد جلدیں بن چکی ہیں. نئی سوچ یہاں تک کہ اگلے سو سال تک کے دینی مسائل کے جواب حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی کتاب «تحریر الوسیلہ» میں آیا ہوا ہے. چاند پر جانے والے شخص کے مسائل کو تحریر الوسیلہ میں بیان کیا گیا ہے.
یونیورسٹیوں میں بھی نئی سوچ بڑھ چکی ہے. کوشش کرنی چاہئے کہ یہ فقاہت حوزہ اور یونیورسٹی میں قائم رہے. اللہ تعالی کبھی بھی وہ دن نہ لائے جب حوزہ ہای علمیہ یہ احساس کریں کہ نئی سوچ اور نئی تحقیق کی طرف نہیں جانا چاہئے، کیونکہ دوسرے ان کی مزاح اڑائیں گے. اللہ تعالی وہ دن کبھی نہ لائے جب ہمارے بزرگ اور ہمارے دانشور اور متفکر سٹوڈنٹس، اور ہماری یونیورسٹیوں کے ماسٹر مائینڈ، بھاگ جائیں، وہ دن وہی ہوگا جب ہماری تہذیب کو نقضان پہنچے گا. اسی طرح حوزہ علمیہ میں نئی سوچ کی طرف رجحان کم ہو جائے. اور خدانخواستہ ایک روحانی یہ احساس کرے کہ آج زیادہ تعلیم اور نئی سوچ کی کوئی ارزش نہیں ہے.
یا یونیورسٹی والوں کو یہ احساس ہو جائے کہ آج اس کے ماسٹر مائنڈ سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہمیشہ دعا کرتے رہئے کہ خدا نخواستہ یہ فقاہت اور ریشہ یابی کبھی ختم نہ ہو جائے. دوسرا جملہ «طبیت بصیر ثقة» طبیب کو بینا ہونا چاہئے اور قابل یقین بھی.
اے عزیزو! یہ روایات اور احکام بہت مشکلات کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں، حضرت کی کتاب «اربعین» کو اٹھا کر ملاحظہ کیجئے. اے یونیورسٹی کے طالب علمو! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام اور تشیع کے نورانی احکام کو بچانے کے لئے جو آج آپ ان کو دوست رکھتے ہیں، روحانیت نے بہت نقصان اٹھائے ہیں.
حضرت امام خمینی کی «اربعین» کو اڈھائیے! اس میں آیا ہے کہ ایک شخص نے کتاب لکھ کر ایسے لوگوں کے لیے وقف کر دی جو ہر روز سو بار جہان تشیع کے لیے مایہ فخر، جناب فیض کاشانی پر لعنتیں بھیجیں. وہ فیض کاشانی جن کا آج آخری «محامدہ ثلاثہ» میں شمار ہوتا ہے. فیض کاشانی جب تفسیر کے میدان میں آتے ہیں تو مفسر ہیں، جب فقہ کے میدان میں آتے ہیں تو فقیہ ہیں، جب فلسفے کے میدان میں آتے ہیں تو فلاسفر ہیں.
آج اسلام میں جاذبیت پیدا کرو! آج اسلام میں جذابیت پیدا کرنا اس طریقے سے ممکن ہے کہ کہیں اسلام انسانیت کا حامی ہے. عوام کو اسلام کی طرف رغبت دلانا، اس وقت ممکن ہوگا جب کہا جائے کہ اسلام نے کسی کی توہین نہیں کی ہے، لوگوں کو اسلام کی طرف لانا اس طرح سے ممکن ہوگا جب کہا جائے کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا. جی ہاں، برا آدمی، برا ہوتا ہے، لیکن دوسرے عام لوگ، انسان ہیں چاہے جس مذہب اور گروہ کے بھی ہوں. «لقد کرمنا بنی آدم» یہ قرآن کریم کی آیت ہے، اسلام کی خوبیوں کو بیان کیجئے، تاکہ دنیا اسلام کی طرف مائل ہو، آج اسلام کا معجزہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کا حامی ہے.
«اللهم وفّقنا لما تحبّ و ترضي»
https://www.saanei.org