• صارفین کی تعداد :
  • 4041
  • 9/20/2008
  • تاريخ :

21  رمضان کے اہم واقعات

علی -ع-

21 رمضان سنہ 40 ھ ق کو جانشین رسول اکرم (ص) ، مولائے متقیان ، امیرالمومنین حضرت علی (ع) شہید ہوئے ۔ شہادت سے دو روز قبل مسجد میں صبح کی نماز کے دوران جب حضرت علی (ع) سجدے کی حالت میں تھے کہ ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے آپ کے سرپروار کیا اور 21 رمضان کو آپ (ع) اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔ آپ (ع) نے وہ سعادت حاصل کرلی جس کی آپ کو ہمیشہ سے آرزو تھی، یعنی راہ خدا میں شہادت ۔آپ کا طرز زندگی ، آپ کی حکومتی روش اور آپ کے خطبات و کلمات آج کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی عدل و انصاف اور حق و صداقت کی جستجو کرنے والوں کے لئے مشعل راہ کا کام دے رہے ہیں ۔نہج البلاغہ آپ کے خطبات ، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل اہم کتاب ہے جس کو ایک بڑے عالم و دانشور سید رضی علیہ الرحمہ نے مرتب کیا ہے ۔یہ کتاب حضرت علی (ع) کی حکمت آمیز باتوں ، عرفانی معارف اور اخلاقی نصیحتوں کا بحر بے کراں ہے ۔حضرت علی (ع) نے انسان کے لئے اخلاقی فضائل سے آراستہ ہونے کی بہترین راہ ،تقویٰ و پرہیزگاری کو قراردیا ہے ۔آپ (ع) نے اپنے اہل خانہ کے لئے وصیت میں اہم ترین اخلاقی مسائل کو نصیحت کے انداز میں بیان فرمایا ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ : میں تمہیں اورجس تک میری نصیحت پہنچ رہی ہے ، تقویٰ و پرہیزگاری اور اپنے کاموں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔یتیموں کاخیال رکھو پڑوسیوں کے ساتھ نیکی کرو ۔ پیغمبر اکرم (ص) اس قدر پڑوسیوں کے بارے میں نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی بھی ورثے میں شریک ہوں گے ۔قرآن سے دوری اختیار نہ کرنا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں ۔نماز کو اہمیت دوکہ نماز دین کا ستون ہے ۔

 

21 رمضان المبارک سنہ 1104 ہجری قمری کو لبنان کے معروف عالم اور محدث " شیخ حرّ عاملی " کا انتقال ہوا ۔وہ سنہ 1033 ہجری میں پیدا ہوئےتھے انہوں نے 40 سال تک لبنان اور شام کے قابل قدر اساتذہ سے کسب فیض کیا اور ان کے علم سے بہرہ مند ہوئے ۔شیخ حر عاملی کچھ عرصے بعد ایران کے شہر مشہد مقدس چلے آئے اور تقریبا" 24 سال تک دین کی ترویج ، تدریس اور قاضی کے فرائض انجام دیئے ۔اس بلند پایہ عالم کی تالیفات میں کتاب "وسائل الشیعہ " معروف ترین ہے جو فقہ اور حدیث کی معتبر کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ان کی دیگر کتب میں " الجواہرُ السنیّہ فی الاحادیث القُدسیّہ " اور " دیوان شعر عربی " قابل ذکر ہیں ۔