• صارفین کی تعداد :
  • 5052
  • 8/10/2008
  • تاريخ :

حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت

السلام علیک یا بقیة الله فی ارضه

مورخےن کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھج یوم جمعہ بوقت طلوع فجرواقع ہوئی ہے جیسا کہ (وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن الوردی ، ینابع المودة، تاریخ کامل طبری ، کشف الغمہ ، جلاٴالعیون ،اصول کافی ، نور الا بصار ، ارشاد ، جامع  عباسی ، اعلام الوری ، اور انوار الحسینہ وغیرہ میں موجود ہے (بعض علماٴ کا کہنا ہے کہ ولادت کا سن  ۲۵۶ ھ ج اور ما دہ ٴ تاریخ نور ہے ) یعنی آپ شب برات کے اختتام پر بوقت صبح صادق عالم ظھور وشہود میں تشریف  لائے ہیں  ۔

 

۱ نرجس ایک یمنی بوٹی کو کہتے ہیں جس کے پھول کی شعراٴ آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہیں (المنجد ص۸۶۵ ) منتہی الادب جلد ۴ ص۲۲۲۷ میں ہے کہ یہ جملہ دخیل اور معرب یعنی کسی دوسری زبان سے لایا گیا ہے ۔ صراح ص۴۲۵ اور العماط صدیق حسن ص۴۷ میں ہے کہ یہ لفظ نرجس ، نرگس سے معرب ہے جو کہ فارسی ہے ۔ رسالہ آج کل لکھنؤ کے سالنامہ ۱۹۴۷ کے ص ۱۱۸ میں ہے کہ یہ لفظ یونانی نرکسوس سے معرب ہے ، جسے لاطینی میں نرکسس اورانگیریزی میں نرس سس کہتے ہیں ۔

 

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئتو آپ نے فرمایا کہ اے  پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہئے کیونکہ خداوند عالم مجھے آج ایک وارث عطا فرمائے گا ۔ میں نے کہا کہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہوگا ۔ آپ نے فرمایا کہ بطن نرجس سے متولد ہوگا ، جناب حکیمہ نے کہا : بیٹی! میں تو نرجس میں کچھ بھی حمل کے آثار نہیں پاتی، امام نے فرمایا کہ اسے پھوپھی نرجس کی مثال مادر موسی جیسی ہے جس طرح حضرت موسی کا حمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہر نہیں ہو ا۔ اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بر وقت ظاہر ہوگا غرضکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب و ہیں رہی جب آدھی رات گذر گئی تومیں اٹھی اور نماز تہجد میں مشغول  ہو گئی اور نرجس بھی اٹھ کر نماز تہجد پڑھنے لگی ۔ اس کے بعد میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ صبح قریب ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے جو کہا تھا وہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا ، اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آوازدی : اے  پھوپھی جلدی نہ کیجئے ،حجت خدا کے ظہور کا وقت بالکل قریب ہے یہ سن کر میں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی ،نرجس مجھے راستے ہی میں ملیں ، مگر ان کی حالت اس وقت متغیر تھی ، وہ لرزہ بر اندام تھیں اور ان کا سارا جسم کانپ رہا تھا ،میں نے یہ دیکھ  کر ان کو اپنے سینے سے لپٹالیا ، اور سورہ قل ھو اللہ ،اناانزلنا و ایة الکرسی  پڑھ کران پردم کیا  بطن مادر سے بچے کی آواز آنے لگی ، یعنی میں جو کچھ پڑھتی تھی ، وہ بچہ بھی بطن مادر میں وہی کچھ پڑھتا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن و منور ہوگیا ۔ اب جو میں دیکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑا ہوا ہے میں نے بچہ کو اٹھا لیا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے میں لے گئیی آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا ،اور زبان در دھان دے کر اور اپنی زبان بچے کے منہ میں دے دی اور کہا کہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ، بچے نے اس آیت : بسم اللہ الرحمن الرحیم ونریدان نمن علی اللذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم الوارثین کی تلاوت کی ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پر جوز مین پرکمزور کردئیے گئے ہیں اور ان کو امام بنائیں اورانھیں کو روئے زمین کا وارث قرار دیں ۔

اس کے بعد کچھ سبزطائروں نے آکر ہمیں گھیرلیا ، امام حسن عسکری نے ان میں سے ایک طائرکو بلایا اور بچے کودیتے ہوئے کہا کہ خدہ فاحفظہ الخ اس کو لے جاکر اس کی حفاظت کرو یہاں تک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے کیونکہ خدا اپنے حکم کو پورا کرکے رہے گآ میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائر کون تھا اور دوسرے طائر کون تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے ، اوردوسرے فرشتگان رحمت تھے اس کے بعد فرمایا کہ اے  پھوپھی اس فرزند کو اس کی ماں کے  پاس لے آو تا کہ اس کی آنکھیں خنک ہوں اورمحزون و مغوم نہ ہو اور یہ جان لے کہ خدا کا وعدہ حق ہے  و اکثرھم لایعلمون لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے ۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا گیا (شواہدالنبوة  ص ۲۱۲ طبع لکھنؤ ۱۹۰۵ء علامہ حائری لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد آپ کو جبرئیل پرورش کے لئے اٹھاکر لے گئے (غایۃالمقصود جلد۱  ص ۷۵) کتاب شواہدالنبوت اور وفیات الاعیان وروضة الاحباب میں ہے کہ جب آپ پیدا ہوے تو مختون اورناف بریدہ  تھے اور آپ کے داہنے بازو پر یہ آیت منقوش تھی  جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا  یعنی حق آیا اورباطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کے قابل تھا ۔ یہ قدرتی طور پر بحر متقارب کے دو مصرعے بن گئے ہیں حضرت نسیم  امرو ہوی نے اس پر کیا خوب تضمین کی ہے وہ لکھتے ہیں.  

 

چشم وچراغ دےدہٴ نرجس

  عین خداکی آنکھ کاتارا
بدرکمال نیمہٴ شعبان 
چودھواں اختراوج بقاکا
حامی ملت ماحیٴ بدعت
کفرمٹانے خلق میں آیا
وقت ولادت ماشاء اللہ

       قرآن صورت دیکھ کے بولا

جاء الحق وزھق الباطل
ان الباطل کان زھوقا

      

 محدث دہلوی شیخ عبدالحق اپنی کتاب مناقب ائمہ اطہارمیں لکھتے ہیں کہ حکیمہ خاتون جب نرجس کے پاس آئیں تو دیکھا کہ ایک مولود پیدا ہوا  ہے ، جو مختون اور مفروغ منہ ہے  یعنی جس کا ختنہ کیا ہوا ہے اور نہلانے دھلانے کے کاموں سے جو مولود کے ساتھ ہوتے ہیں بالکل مستغنی ہے ۔ حکیمہ خاتون بچے کو امام حسن عسکری کے پاس لائیں ، امام نے بچے کولیا اوراس کی پشت اقدس اور چشم مبارک پر ہاتھ پھیرا اپنی زبان مطہران کے منہ میں ڈالی اور داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی یہی مضمون فصل الخطاب اور بحارالانوار میں بھی ہے ، کتاب روضةالاحباب ینابع المودة میں ہے کہ آپ کی ولادت بمقام سرمن رائے سامرہ میں ہوئی ہے ۔

 

کتاب کشف الغمہ ص۱۳۰ میں ہے کہ آپ کی ولادت چھپائی گئی اور پوری سعی کی گئی کہ آپ کی پے دائیش کسی کو معلوم نہ ہوسکے ، کتاب دمعہ ساکبہ جلد ۳ص۱۹۴ میں ہے کہ آپ کی ولادت اس لئے چھپائی گئی کہ بادشاہ وقت پوری طاقت کے ساتھ آپ کی تلاش میں تھا اسی کتاب کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت حجت کو قتل کرکے نسل رسالت کا خاتمہ کر دے ۔  تاریخ ابوالفداٴ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتزباللہ تھا ، تذکرہ خواص الامة میں ہے کہ اسی کے عہدمیں امام علی نقی کو زہر دیا گیا تھا ۔ معتز کے بارے میں مورخین کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے ۔ ترجمہ تاریخ الخلفاٴ علامہ سیوطی کے ص۳۶۳ میں ہے کہ اس نے اپنے عہد خلافت میں اپنے بھائی کو ولی عہدی سے معزول کرنے کے بعد کوڑے لگوائے تھے اور تاحیات قید میں رکھاتھا ۔ ا کثر تواریخ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتمد بن متوکل تھا جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو زہرسے شہید کیا ۔ تاریخ اسلام جلد۱ ص ۶۷ میں ہے کہ خلےفہ معتمد بن متوکل کمزور متلون مزاج اورعیش پسند تھا ۔ یہ عیاشی اورشراب نوشی میں بسر کرتا تھا ، اسی کتاب کے صفحہ ۲۹ میں ہے کہ معتمد حضرت امام حسن عسکری کو زہر سے شہید کرنے کے بعدحضرت امام مہدی کوقتل کرنے کے درپے ہوگیاتھا ۔