• صارفین کی تعداد :
  • 6340
  • 7/6/2008
  • تاريخ :

علی نقی علیہ السلام

امام علی نقی علیہ السلام
 

علی نقی

 مکمل نام علی ابن محمد

ترتیب دہم

جانشین حسن عسکری علیہ السلام

تاریخ ولادت 02 رجب، 212 ہجری

لقب نقی، ہادی

کنیت ابو الحسن ثالث

والد محمد تقی علیہ السلام

والدہ بی بی سمانہ

تاریخ وفات 03 رجب، 254 ہجری ، 868عیسوی

وجۂ وفات: شہادت

 

 

نام و نسب

ولادت اور نشو و نما

انقلابات سلطنت

 الام ومصائب

اخلاق واوصاف

 وفات

 

   نام و نسب

اسم مبارک علی علیہ السّلام , کنیت ابو الحسن علیہ السّلام اور لقب نقی علیہ السّلام ہے چونکہ آپ سے پہلے حضرت علی مرتضٰی علیہ السّلام اور امام رضا علیہ السّلام کی کنیت ابو الحسن ہو چکی تھی- اس لئے آپ کو ابوالحسن ثالث« کہا جاتا ہے والدہ معظمہ آپ کی سمانہ خاتون تھیں-

  ولادت اور نشو و نما

 5رجب 214 ه .ق مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی- صرف چھ برس اپنے  والد  بزرگوار کے زیر سایہ ہی زندگی بسر کی- اس کے بعد اس کم سنی ہی کے عالم میں آپ اپنے  والد  بزرگوار  سے جدا  ہو گئے-  امام محمد تقی علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا اور وہی29 ذیعقده میں حضرت علیہ السّلام کی شہادت ہو گئی- جس کے بعد امامت کی ذمہ داریاں امام علی نقی علیہ السّلام کے کاندھے پر آ گئیں- اس صورت میں سوائے قدرت کی آغوش تربیت کے اور کون سا گہوارہ تھا جسے آپ کے علمی اور عملی کمال کی بلندیوں کا مرکز سمجھا جا سکے-

 انقلابات سلطنت

حضرت امام علی نقی علیہ السّلام کے دور امامت میں معتصم کا انتقال ہوا اور واثق باللہ کی حکومت شروع ہوئی~0236ئھ میں واثق دنیا سے رخصت ہوا اور مشہور ظالم و سفاک دشمن اہل بیت علیہ السّلام متوکل تخت حکومت پر بیٹھا- 250 ه  میں متوکل ہلاک ہوا اور منتصر باللہ خلیفہ تسلیم کیا گیا- جو صرف چھ مہینہ سلطنت کرنے کے بعد مر گیا , اور مستعین بالله کی سلطنت قائم ہوئی . 353 ه میں مستعین کو حکوت سے دست بردار ہو کر جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور معتز بالله بادشاہ ہوا . یہی امام علی نقی علیہ السّلام کے زمانے کااخری بادشاہ ہوا.

 الام ومصائب

معتصم نے خواہ اپنی ملکی پریشانیوں کی وجہ سے جو  اسے رومیوں کی جنگ اور  بغداد کے دارالسلطنت میں عباسیوں کے فساد وغیرہ کی وجہ سے در پیش تھیں اور خواہ امام علی نقی علیہ السّلام کی کمسنی کاخیال کرتے ہوئے بہر حال حضرت علیہ السّلام سے کوئی تعرض نہیں کیا اور اپ سکون واطمینان کے ساتھ مدینہ منورہ میں اپنے فرائض پورے کر نے میں مصروف رہے . معتصم کے بعد واثق نے بھی اپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا . مگر متوکل کا تخت سلطنت پر بیٹھنا تھا کہ امام علی نقی علیہ السّلام پر تکالیف کا سیلاب امڈ  ایا . یہ واثق کا بھائی او معتصم کا بیٹا تھا, اور الِ رسول کی دشمنی میں اپنے تمام ابا و اجداد سے بڑھا ہوا تھا . اس سولہ برس میں جب سے امام علی نقی علیہ السّلام منصب امامت پر فائز ہوئے تھے اپ کی شہرت تمام مملکت میں پھیل چکی تھی اور تعلیمات اہل بیت علیہ السّلام کے پروانے اس شمع ُ ہدایت پر برابر ٹوٹ رہے تھے . ابھی متوکل کی سلطنت کو چار برس ہوئے تھے کہ مدینے کے حکام عبدالله بن حاکم نے امام علیہ السّلام سے مخالفت کا اغاز کیا .

امام علی نقی علیہ السلام

 پہلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی تکلیفیں پہنچائیں پھر متوکل کو اپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق سلاطین کے پاس اپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی جاتی تھیں . مثلاً یہ کہ حضرت علیہ السّلام اپنے گردو پیش اسباب سلطنت جمع کر رہے ہیں . اپ کے ماننے والے اتنی تعداد میں بڑھ گئے ہیں کہ اپ جب چاہیں حکومت کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں- حضرت کو اس تحریر کی بر وقت اطلاع  ہو گئی اور آپ نے اتمام حجت کے طور پراسی کے ساتھ متوکل کے  پاس  اپنی  جانب  سے  ایک  خط  تحریر  فرما  دیا  جس میں حال مدینہ کی اپنے ساتھ ذاتی مخالفت کا تذکرہ اور اس کی غلط بیانیوں کا اظہار فرمایا تھا- متوکل نے از اراہ سیاست امام علی نقی علیہ السّلام کے خط  کو  وقعت دیتے ہوئے مدینہ کے اس حاکم کو  معزول کر دیا مگر ایک فوجی رسالے کو یحیٰی بن ہرثمہ کی قیادت میں بھیج کر حضرت علیہ السّلام سے بظاہر دوستانہ انداز میں باصرار یہ خواہش کی کہ آپ مدینہ سے درالسلطنت سامرا تشریف لا کر کچھ دن قیام فرمائیں اور  پھر  واپس مدینہ تشریف لے جائیں- امام علیہ السّلام اس التجا کی حقیقت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے یہ نیاز مندانہ دعوت تشریف آوری حقیقت میں جلا وطنی کا حکم ہے مگر انکار کا کوئی حاصل نہ تھا- جب کہ انکار کے بعد اسی طلبی کے انداز کا دوسری شکل اختیار کر لینا یقینی تھا- اور اس کے بعد روانگی ناگزیر تھی- بے شک مدینہ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہونا آپ کے قلب کے لئے و یسا ہی تکلیف دہ ایک صدمہ تھا جسے اس کے پہلے حضرت امام حسین علیہ السّلام, امام موسٰی کاظم علیہ السّلام, امام رضا علیہ السّلام اور امام محمد تقی علیہ السّلام آپ کے مقدس اور بلند مرتبہ اجداد برداشت کر چکے تھے- وہ اب آپ کے لئے ایک میراث بن چکا تھا- پھر بھی دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ مدینہ سے روانگی کے وقت آپ کے تاثرات اتنے شدید تھے جس سے احباب و اصحاب میں ایک کہرام برپا تھا- متوکل کا عریضہ بارگاہ امام علیہ السّلام میں بڑے اخلاص اور اشتیاق قدم بوسی کا مظہر تھا- فوجی دستہ جو بھیجا گیا تھا وہ بظاہر سواری کے  احتشام اور امام علیہ السّلام کی حفاظت کا ایک سامان تھا مگر جب حضرت علیہ السّلام سامرے میں پہنچ گئے اور متوکل کو اس کی اطلاع دی گئی تو پہلا ہی اس کا افسوسناک رویہ یہ تھا کہ بجائے امام علیہ السّلام کے استقبال یا کم از کم اپنے یہاں  بلا  کر  ملاقات کرنے کے اس نے حکم دیا کہ حضرت کو "خاف الصعالیک "میں اتارا جائے , اس لفظ کے معنی ہی ہیں :بھیک مانگنے والے گداگروں کی سرائے"  اس سے جگہ کی نوعیت کا پورے طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ شہر سے دور ویرانے میں ایک کھنڈر تھا- جہاں امام علیہ السّلام کو فروکش ہونے پر مجبور کیا گیا- اگرچہ یہ مقدس حضرات خود فقرا کے ساتھ ہم نشینی کو اپنے لئے ننگ و عار نہیں سمجھتے تھے اور تکلیفات ظاہری سے کنارہ کش رہتے تھے مگر متوکل کی نیت تو اس طرز عمل سے بہرحال تحقیر کے سوااور کوئی نہیں تھی- تین دن تک حضرت کا قیام یہاں رہا- اس کے بعد متوکل نے آپ کو اپنے حاجب رزاقی کی حراست میں نظر بند کر دیا اور عوام کے لئے آپ سے ملنے جلنے کو ممنوع قرار دیا- وہی بے گناہی اور حقانیت کی کشش جو امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کی قید کے زمانہ میں سخت سے سخت محافظین کو کچھ دن کے بعد آپ کی رعایت پر مجبور کر دیتی تھی اسی کا اثر تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد رزاقی کے دل پر امام علی نقی علیہ السّلام کی عظمت کا سکہ قائم ہو گیا اور وہ آپ کو تکلیف دینے کے بجائے آرام و راحت کے سامان بہم پہنچانے لگا مگر یہ بات زیادہ عرصہ تک متوکل سے چھپ نہیں سکتی تھی-

امام علی نقی علیہ السلام

 اسے علم ہو گیا اور اس نے رزاقی کی قید سے نکل کر حضرت علیہ السّلام کو ایک دوسرے شخص سعید کی حراست میں دے دیا- یہ شخص بے رحم اور امام علیہ السّلام کے ساتھ سختی برتنے والا تھا- اسی لئے اس کے تبادلے کی ضرورت نہیں پڑی اور حضرت پورے بارہ برس اس کی نگرانی میں مقید رہے- ان تکالیف کے ساتھ جو اس قید میں تھے حضرت علیہ السّلام شب و روز عبادت الٰہی میں بسر کرتے تھے- دن بھر روزہ رکھنا اور رات بھر نمازیں پڑھنا معمول تھا- آپ کا جسم کتنے ہی قید و بند میں رکھا گیا ہو مگر آپ کا ذکر چار دیواری میں محصور نہیں کیا جا سکتا تھا- نتیجہ یہ تھا کہ آپ تو تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مقید تھے مگر آپ کا چرچہ سامرے بلکہ شاید عراق کے ہر گھر میں تھا اور اس بلند سیرت و کردار کے انسان کو قید رکھنے پر خلق خدا میں متوکل کے مظالم سے نفرت برابر پھیلتی جا رہی تھی- اب وہ وقت ایا کہ فتح بن خاقان باوجود الرسول سے محبت رکھنے کے صرف اپنی قابلیت اپنے تدبر اور اپنی دماغی وعملی صلاحیو توں کی بنا پر متوکل کا وزیر ہو گیا, تو اس کے کہنے سننے سے متوکل نے امام علی نقی علیہ السّلام کی قید کو نظر بندی سے تبدیل کر دیا اور آپ کو ایک مکان دے کر مکان تعمیر کرنے اور اپنے ذاتی مکان میں سکونت کی اجازت دے دی مگر اس شرط سے کہ اپ سامرے سے باہر نہ جائیں اور سعید اپ کی نقل وحرکت اور مراسلات و تعلقات کی نگرانی کرتا رہے گا . اس دور میں بھی امام علیہ السّلام کااستغنائے نفس دیکھنے کے قابل تھا . باوجود دارالسلطنت میں مستقل طور پر قیام کے نہ کبھی متوکل کے سامنے کوئی درخواست پیش کی نہ کبھی کسی قسم کے ترحم یا تکریم کی خواہش کی وہی عبادت و ریاضت کی زندگی جو قید کے عالم میں تھی . ا س نظر بندی کے دور میں بھی رہی . جو کچھ تبدیلی ہوئی تھی وہ ظالم کے رویه  میں تھی . مظلوم کی شان جیسے  پہلے  تھی  ویسی ہی اب بھی قائم رہی . اس زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ امام کو بالکل ارام و سکون کی زندگی بسر کرنے دی جاتی . مختلف طرح کی تکالیف سے اپ کے مکان کی تلاشی لی گئی کہ وہاں اسلحہ ہیں یا ایسے خطوط ہیں جن سے حکومت کی مخالفت کاثبوت ملتا ہے حالانکہ ایسی کوئی چیز ملی نہیں مگر  یہ تلاشی ہی ایک بلند اور بے گناہ انسان کے لیے کتنی باعث تکلیف چیز ہے اس سے بڑھ کر یہ واقعہ کہ دربار شاہی میں عین اس وقت اپ کی طلبی ہوتی ہے جب کہ شراب کے دور چل رہے ہیں . متوکل اور تمام حاضرین دربار طرب و نشاط میں غرق ہیں . اس پر طرہ یہ کہ سرکش, بے غیرت اور جاہل بادشاہ حضرت علیہ السّلام کے سامنے جامِ شراب بڑھا کر پینے کی درخواست کرتا ہے . شر یعت اسلام کے محافظ معصوم علیہ السّلام کو اس سے جو تکلیف پہنچ سکتی ہے وہ تیر و خنجر سے یقیناً زیادہ ہے مگر حضرت علیہ السّلام نے نہایت متانت اور صبر و سکون کے ساتھ فرمایا کہ :مجھے ا س سے معاف کیجئے , میرا میرے ابا و اجداد کا خون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نہیں ہوا ہے.: اگر متوکل کے احساسات میں کچھ بھی زندگی باقی ہوتی تو وہ اس معصومانہ مگر شکوہ جواب کا اثر کرتا مگر اس نے کہا کہ اچھا یہ نہیں تو کچھ گانا ہی ہم کو سنائیے .

امام علی نقی علیہ السلام

حضرت علیہ السّلام نے فرمایا میں اس فن سے بھی واقف نہیں ہوں .: اخر اس نے کہا کہ اپ کو کچھ اشعار جس طریقے سے بھی اپ چاہیں بہرحال پڑھنا ضرور پڑھیں گے . کوئی جذبات کی رو میں بہنے والا انسان ہوتا تو اس خفیف الحرکات بادشاہ کے اس حقارت انگیز یا تمسخر امیز برتاؤ سے متاثر ہو کر شاید اپنے توازن دماغی کو کھو دیتا مگر وہ کوہ : حلم و وقار , امام علیہ السّلام کی ہستی تھی جو اپنے کردار کو فرائض کی مطابقت سے  تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ دار تھی, منہیات کے دائرہ سے نکل کر جب فرمائش اشعار سنانے تک پہنچی تو امام علیہ السّلام نے موعظہ وتبلیغ کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے دل سے نکلی ہوئی پر صداقت اواز سے یہ اشعار پڑھنا شروع کردئے جنھوں نے محفل طرب میں مجلس وعظ کی شکل پیدا کردی . یا تو اعلٰی قلل الاجبال تحرسھم ارہے پہاڑ کی چوٹی پہ پہرے بٹھلا کر واستنز لوا بعد عز من معاقلھم بلند قلعوں کی عزت جو پست ہو کے رہی نادا ھم صارخ من بعد ماد فنوا صدا یہ ان کو دی  ہاتف نے بعد دفن لحد این الوجوہ التی کانت مجعبة کہاں وہ چہرے ہیں جو تھے ہمیشہ زیر نقاب فافصح القبر عنھم حین سائلھم زبان حال سے  بولے جواب میں مدفن قد طال ما اکلوا فیھا و ھم شربوا غذائیں کھائیں شرابیں جو پی تھیں حدے سو اغلب الرجال فما اغنتھم القلل  بہادروں کی حراست میں بچ سکے نہ مگر الٰی مقابر ھم یا بکسما نزلوا تو کنج قبر میں منزل بھی کیا بری پائی این الاسیرة والتیجان والحلل کہاں ہیں تخت, وہ  تاج اور وہ لباس جسد من دونھا تضرب الاستار و الکلل غبار جن پہ کبھی آنے دیتے تھے نہ حجاب تلک الوجوہ علیھا ادود تنتقل وہ رخ زمین کے کیڑوں کا بن گئے مسکن فاصبحوا بعد طول الاکل قد اکلوا نتیجہ اس کا ہے خود آج بن گئے وہ غذا اشعار کچھ ایسے حقیقی تاثرات کے ساتھ امام علیہ السّلام کی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ متوکل کے عیش و نشاط کی بساط الٹ گئی . شراب کے پیالے ہاتھوں سے چھوٹ گئے اور تمام مجمع زار و قطار رونے لگا .

امام علی نقی علیہ السلام

یہاں تک کہ خود متوکل ڈاڑھیں مار مار کر  بے اختیار رو رہا تھا . جوں ہی ڈارا  ناموقوف ہوا اس نے امام علیہ السّلام کو رخصت کر دیا اور اپ اپنے مکان پر تشریف لے گئے . ایک اورنہایت شدید روحانی تکلیف جو امام علیہ السّلام کو اس دور میں پہنچی وہ متوکل کے تشدّد احکام تھے جو نجف اور کربلا کے زائرین کے خلاف ا س نے جاری کیے . اس نے یہ حکم دان تمام قلم  رو حکومت میں جاری کر دیا کہ کوئی شخص جناب امیر علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام کے روضوں کی زیارت کو  نہ جائے , جو بھی اس حکم کی مخالفت کرے گا اس کا خون حلال سمجھا جائے گا- اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے حکم دیا کہ نجف اور کربلا کی عمارتیں بالکل گرا کر زمین کے برابر کردی جائیں . تمام مقبرے کھود ڈالے جائیں اور قبر امام حسین علیہ السّلام کے گرد وپیش کی تمام زمین پر کھیت بودیئے جائیں . یہ ناممکن تھا کہ زیارت کے امتناعی احکام پر اہل بیت رسول کے جان نثار اسانی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے . نتیجہ یہ ہوا کہ اس سلسلہ میںہزاروں بے گناہوں کی لاشیں خاک وخون میں تڑپتی ہوئی نظر ائیں کیا اس میں شک ہے کہ ان میں سے ہر ایک مقتول کا صدمہ امام علیہ السّلام کے دل پر اتنا ہی ہوا تھا جتنا کسی اپنے ایک عزیز کے بے گناہ قتل کیے جانے کاحضرت علیہ السّلام کو ہوسکتا تھا . پھر اپ تشدّد کے ایک ایسے ماحول میں گھیر رکھے گئے تھے کہ اپ وقت کی مناسبت کے لحاظ سے ان لوگوں تک کچھ مخصوص ہدایات بھی نہیں پہنچاسکتے تھے جو ان کے لیے صحیح فرائض شرعیہ کے ذیل میں اس وقت ضروری ہوں یہ اندوہناک صورتِ حال ایک دوبرس نہیں بلکہ متوکل کی زندگی کے اخری وقت تک برابر قائم رہی . اور سنیئے کہ متوکل کے دربار میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام کی نقلیں کی جاتی تھی اور ان پر خود متوکل اور تمام اہل دربار ٹھٹے لگاتے تھے . یہ ایسا اہانت امیز منظر تھا کہ ایک مرتبہ خود متوکل کے بیٹے سے رہا نہ گیا . اس نے متوکل سے کہا کہ خیر اپ اپنی زبان سے حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں کچھ الفاظ استعمال کریں مگر جب اپ کو ان کا عزیز قرار دیتے ہیں تو ان کم بختوں کی زبان سے حضرت علی علیہ السّلام کے خلاف ایسی باتوں کو کیونکر گوارا کرتے ہیں اس پر بجائے کچھ اثر لینے کے متوکل نے اپنے بیٹے کافحش امیز تمسخر کیا اور دو شعر نظم کرکے گانے والوں کو دئیے جس میں خود اس کے فرزند کے لیے ماں کی گالی موجود تھی . گویّے ان شعروں کو گاتے تھے اور متوکل قہقے لگاتا تھا . اسی دور کا ایک واقعہ بھی کچھ کم قابل افسو س نہیں ہے ابن السکیت بغدادی علم نحوولغت کے امام مانے جاتے تھے اور متوکل نے اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے لیے انھیں مقرر کیا تھا . ایک دن متوکل نے ان سے پوچھا کہ تمھیں میرے ان دونوں بیٹوں سے زیادہ محبت ہے یا حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام سے ابن السکیت محبت اہل بیت علیہ السّلام رکھتے تھے اس سوال کو سن کر بیتاب ہوگئے اور انھوں نے متوکل کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بے دھڑک کہ دیا کہہ حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام کا کیا ذکر , مجھے تو علی علیہ السّلام کے غلام قمبررض کے ساتھ ان دونوں سے کہیںزیادہ محبت ہے . اس جواب کا سننا تھا کہ متوکل غصّے سے بیخود ہوگیا , حکم دیا کہ ابن السکیت کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے . یہی ہو اور اس طرح یہ ال ُ رسول کے فدائی درجہ شہادت پر فائز ہوئے . ان واقعات کابراہ راست جسمانی طور پر حضرت امام علی نقی سے تونہ تھا مگر بخدا ان کی ہر ہر بات ایک تلوار کی دھار تھی جو گلے پر نہیں دل پر چلا کرتی تھی , متوکل کاظالمانہ رویّہ ایسا تھا جس سے کوئی بھی دور یا نزدیک کا شخص ا س سے خوش یامطمئن نہیں تھا . حدیہ ہے کہ اس کی اولاد تک اس کی جانی دشمن ہوگئی تھی , چنانچہ اسی کے بیٹے منتص نے    اس کے بڑے مخصوص غلام باغر رومی کو ملا کر خود متوکل ہی کی تلوار سے عین اس کی خواب گاہ میں اس کو قتل کرا دیا . جس کے بعد خلائق کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور منتصر کی خلافت کا علان ہوگیا . منتصر نے تخت  حکومت پر بیٹھتے ہی اپنے باپ کے متشد انہ احکاکم کو یک لخت منسوخ کردیا. نجف اور کربلا زیارت کے لیے عام اجازت دے دی اور ان مقدس روضوں کی کسی حد تک تعمیر کرا دی . امام علی نقی علیہ السّلام کے ساتھ بھی اس نے کسی خاص تشدد کا مظاہرہ  نہیں کی مگر منتصر کی عمر طولانی نہیں ہوئی . وہ چھ مہینہ کے بعد دنیا سے اٹھ گیا منتصر کے بعد مستعین کی طرف سے امام علیہ السّلام کے خلاف کسی خاص بدسلوکی کا برتاؤ  نظر  نہیں اتا . امام علیہ السّلام نے چونکہ مکان بنا کر مستقل قیام اختیار فرما لیا تھا اس لیے یا تو خود اپ ہی نے مناسب نہ سمجھا یا پھر ان بادشاہوں کی طرف سے اپ کے مدینہ واپس جانے کو پسند نہیں کیا گیا ہو . بہر حال جو بھی وجہ ہو قیام اپ کا سامرہ ہی میں رہا . اتنے عرصے تک حکومت کی طرف سے مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے علوم اہلبیت علیہ السّلام کے   طلب گار ذرا اطمینان کے ساتھ کثیر تعداد میں اپ سے استفادہ کے لیے جمع ہونے لگے جس کی وجہ سے مستعین کے بعد معتز کو پھر اپ سے صرخاش پیدا ہوئی اور اس نے اپ کی زندگی ہی کاخاتمہ کردیا .

امام علی نقی علیہ السلام

اخلاق واوصاف

حضرت کی سیرت اوراخلاق وکمالات وہی تھے جو اس سلسلئہ عصمت کے ہر فرد کے اپنے اپنے دور میں امتیازی طور پر مشاہدہ میں اتے رہے تھے . قید خانے اور نظر بندی کاعالم ہو  یا ازادی کا زمانہ ہر وقت اور ہر حال میں یاد الٰہی , عبادت , خلق ُ خدا سے استغنا ثبات قدم , صبر واستقلال مصائب کے ہجوم میںماتھے پر شکن نہ ہونا دشمنوں کے ساتھ بھی حلم ومرّوت سے کام لینا ,محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد کرنا یہی اورصاف ہیںجو امام علیہ السّلام علی نقی علیہ السّلام کی سیرت زندگی میں بھی نمایاں نظر اتے ہیں . قید کے زمانہ میں جہاں بھی اپ رہے اپ کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ہوئی تیار تھی . دیکھنے والوں نے جب ا س پر حیرت ودہشت کااظہار کیا تو اپ نے فرمایا میںاپنے دل میں موت کاخیال قائم رکھنے کے لیے یہ قبر اپنی نگاہوں کے سامنے تیار رکھتا ہوں . حقیقت میں یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت اور اس کے حقیقی تعلیمات کی نشرواشاعت کے ترک کردینے کی خواہش کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا. یعنی زیادہ سے زیادہ سلاطین وقت کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ جان کا لے لینا مگر جو شخص موت کے لیے اتنا تیار ہو کہ ہر وقت کھدی ہوئی قبر اپنے سامنے رکھے وہ ظالم حکومت سے ڈر کر سر تسلیم خم کرنے پر کیونکر مجبور کیا جاسکتا  ہے مگر اس کے ساتھ دنیوی سازشوں میں شرکت یاحکومت وقت کے خلاف کسی بے محل اقدام کی تیاری سے اپ کا دامن اس طرح بری رہا کہ باوجود دار سلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے کبھی اپ کے خلاف کوئی الزام صحیح ثابت نہیں ہوسکا اور کبھی سلاطین وقت کوکوئی دلیل اپ کے خلاف تشدد کے جواز کی نہ مل سکی باوجود یہ کہ سلطنت عباسیہ کی بنیادیں اس وقت اتنی کھو کھلی ہو رہی تھیں کہ دارالسلطنت میں ہر روز ایک نئی سازش کافتنہ کھڑا ہوتا تھا . متوکل سے خود اس کے بیٹے منتصر کی مخالفت اور اس کے انتہائی عزیز غلام باغر رومی کی اس سے دشمنی , منتصر کے بعد امرائے حکومت کا انتشار اور اخر متوکل کے بیٹوں کو خلافت سے محروم کرنے کا فیصلہ مستعین کے دور حکومت میں یحییٰ بن عمر بن یحییٰ حسین بن زید علوی کا کوفہ میں خروج اور حسن بن زید المقلب بداعی الحق کا علاقہ , طبرستان پر قبضہ کرلینا اور مستقل سلطنت قائم کر لینا , پھر دار السلطنت میں ترکی غلاموں کی بغاوت مستعین کا سامرے کو چھوڑ کر بغداد کی طرف بھاگنا اور قلعہ بند ہوجانا , اخر کو حکومت سے دستبرادی پر مجبور ہونا او کچھ عرصہ کے بعد معتز بالله کے ہاتھ سے تلوار کے گھاٹ اترنا پھر معتزبالله کے دور میں رومیوں کا مخالفت پر تیار رہنا, معتزبالله کو خود اپنے بھائیوں سے خطرہ محسوس ہونا اور موید کی زندگی کا خاتمہ اور موفق کا بصرہ میں قید کیا جانا- ان تمام ہنگامی حالات, ان تمام شورشوں, ان تمام بے چینیوں اور جھگڑوں میں سے کسی میں بھی امام علی نقی علیہ السّلام کی شرکت کا شبہ تک نہ پیدا ہونا کیا اس طرز عمل کے خلاف نہیں ہے جو ایسے موقعوں پر جذبات سے کام لینے والے انسانوں کا ہوا کرتا ہے- ایک ایسے اقتدار کے مقابلے میں جسے نہ صرف وہ حق و انصاف کی رو سے ناجائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کی بدولت انہیں جلاوطنی, قید اور اہانتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر وہ جذبات سے بلند اور عظمت نفس کا کامل مظہر دینوی ہنگاموں اور وقت کے اتفاقی موقعوں سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا اپنی بے لوث حقانیت اور کوہ سے بھی گراں صداقت کے خلاف سمجھتا ہے اور مخالف پرپس پشت سے حملہ کرنے کو اپنے بلند نقطئہ نگاہ اور معیارعمل کے خلاف جانتے ہوئے ہمیشہ کنارہ کش رہتا ہے۔

   وفات

معتز باللّٰہ کے دور میں تیسری رجب  25ھ کو سامرے میں آپ نے رحلت فرمائی۔ اس وقت آپ کے پاس صرف آپ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السّلام موجود تھے- آپ ہی نے اپنے والد بزرگوار کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئے اور اسی مکان میں جس میں حضرت علیہ السّلام کا قیام تھا۔ ایوان خاص میں آپ کو دفن کر دیا وہیں اب آپ کا روضہ بنا ہوا ہے اور عقیدت مند زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں۔