فرید الدین عطار نیشابوری کا قتل
دسویں جمادی الثانی 618 ھ ق کو ایران کے مشہور صوفی شاعر فریدالدین عطار نیشابوری ایران پر منگولوں کے حملوں کے دوران ایک منگول فوجی کے ہاتھوں قتل کردئيے گئے ۔ ان کے والد عطار تھے ۔ والد کے گزرجانے کے بعد انہوں نے بھی والد کا پیشہ اختیار کیا اور عطاری کے ساتھ ساتھ علم طب میں اعلی مقام حاصل کیا ۔ اپنے طبی مشاغل کے علاوہ عطار نیشابوری نے بہت سے صوفیوں کی روایت کے مطابق ایک عرصے سیرو سیاحت میں گزارا ۔
انہوں نے مکّے کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔
وہاں سے وسطی ایشیا میں واقع ماوراء النہر کے علاقے سمیت مختلف شہروں کا سفر کیا اور مجدالدّین بغدادی اور بہت سے بزرگ صوفیوں کی بزم میں شرکت کی ۔ انہوں نے دنیوی عیش و عشرت اور مالی حالت اچھی ہونے کے باوجود سیرو سلوک کی منزلیں طے کیں ۔ تذکرۂ الاولیاء، عطار کی گراں قدر کتاب ہے جو صوفیوں کی حالات میں ہے ۔ منطق الطیر ان کی دوسری گراں قدر کتاب ہے ۔ یہ نادر شعری مجموعہ عرفانی اسرار و رموز کے بیان میں شاعر کی قادر الکلامی قوت تخیل اور معرفت خدا کو بیان کرنے میں فارسی کے زندۂ جاوید شاہکاروں میں شمار ہوتاہے ۔ اس ممتاز ایرانی شاعر کی دیگر تخلیقات میں اسرارنامہ ، الہی نامہ اور مصیبت نامہ قابل ذکر ہیں ۔
متعلقہ تحریریں:
بدیع الزمان ہمدانی
عین القضاة ہمدانی (رح)