حضرت علی (ع) سابق الایمان
یہ امر قابل توجہ ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی جوایمان اوراسلام میں حضرت علی کی سبقت کا سیدھے طریقے سے تو انکار نہیں کرسکے لیکن کچھ واضح البطلان علل کی بنیاد پر ایک اور طریقے سے انکار کی کوشش کی ہے یا اسے کم اھم بنا کر پیش کیا ہے بعض نے کو شش کی ہے ان کی جگہ حضرت ابوبکر کو پہلا مسلمان قرار دیں یہ لوگ کبھی کہتے ہیں کہ علی اس وقت دس سال کے تہے لہٰذا طبعاًنا با لغ تہے اس بناء پر ان کا اسلام ایک بچے کے اسلام کی حیثیت سے دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کے محاذ کے لیے کوئی اھمیت نہیں رکھتا تھا (1)یہ بات واقعاً عجیب ہے اور حقیقت میں خود پیغمبر خدا پر اعتراض ہے کیونکہ ھمیں معلوم ہے کہ یوم الدار(دعوت ذی العشیرہ کے موقع پر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام اپنے قبیلے کے سامنے پیش کیا اور کسی نے حضرت علی(ع) کے سوا اسے قبول نہ کیا اس وقت حضرت علی کھڑے ہوگئے اور اسلام کا اعلان کیا تو آپ نے ان کے اسلام کو قبول کیا بلکہ یھاں تک اعلان کیا کہ تو میرا بھائی ،میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے ۔
یہ وہ حدیث ہے جو شیعہ سنی حافظان حدیث نے کتب صحاح اور مسانید میںنقل کی ہے، اسی طرح کئی مورخین اسلام نے اسے نقل کیا ہے یہ نشاندھی کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع)کی اس کم سنی میں نہ صرف ان کا اسلام قبول کیا ہے بلکہ ان کا اپنے بھائی ، وصی اور جانشین کی حیثیت سے تعارف بھی کروایا ہے ۔(2)
کبھی کہتے ہیں کہ عورتوں میں پھلی مسلمان خدیجہ تہیں ، مردوں میں پھلے مسلمان ابوبکر تہے اور بچوں میں پھلے مسلمان علی تہے یوں دراصل وہ اس امر کی اھمیت کم کرنا چاہتے ہیں(3)
حالانکہ اول تو جیسا کہ ھم کہہ چکے ہیں حضرت علی علیہ السلام کی اھمیت اس وقت کی سن سے اس امر کی اھمیت کم نہیں ہوسکتی خصوصاً جب کہ قرآن حضرت یحٰیی(ع) کے بارے میں کہتا ہے : ”ھم نے اسے بچپن کے عالم میں حکم دیا“۔(4)
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں بھی ہے کہ وہ بچپن کے عالم میں بھی بول اٹھے اور افراد ان کے بارے میں شک کرتے تہے ان سے کھا : ”میں اللہ کا بندہ ہوں مجہے اس نے آسمانی کتاب دی اور مجہے نبی بنایا ہے “(5)
ایسی آیات کو اگر ھم مذکورہ حدیث سے ملاکردیکہیں کہ جس میں آپ نے حضرت علی (ع)کو اپنا وصی، خلیفہ اور جانشین قرار دیا ہے توواضح ہوجاتاہے کہ صاحب المنار کی متعصبانہ گفتگو کچھ حیثیت نہیں رکھتی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ امرتاریخی لحاظ سے مسلم نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر اسلام لانے والے تیسرے شخص تھے بلکہ تاریخ وحدیث کی بہت سی کتب میں ان سے پہلے بہت سے افراد کے اسلام قبول کرنے ذکر ہے ۔ یہ بحث ھم اس نکتے پر ختم کرتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے خود اپنے ارشادات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں پھلا مومن ، پہلا مسلمان اور سول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پہلا نماز گذارہوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام وحیثیت کو واضح کیا ہے یہ بات آپ سے بہت سی کتب میں منقول ہے۔
علاوہ ازیں ابن ابی الحدید مشہور عالم ابو جعفر اسکافی معتزلی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر اسلام میں سبقت رکھتے تہے اگر یہ امر صحیح ہے تو پھر خود انھوں نے اس سے کسی مقام پر اپنی فضیلت کے لیے استدلال کیوں نہیں کیا اور نہ ھی ان کے حامی کسی صحابی نے ایسا دعوی کیا ہے۔(6)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہ بات فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میںسورہٴ توبہ آیت ۱۰۰۔ کے ذیل میں ذکر کی ہے۔
(2) یہ حدیث مختلف عبارات میں نقل هوئی ہے اور جو کچھ ھم نے بیان کیا ہے اسے ابو جعفر اسکافی نے کتاب ”نہج العثمانیہ“ میں ،برھان الدین نے” نجبا الانبا“ میں ،ابن اثیر نے کامل میں اور بعض دیگر علماء نے نقل کیا ہے (مزید وضاحت کے لئے الغدیر،عربی کی جلد دوم ص۲۷۸ تا۲۸۶کی طرف رجوع کریں۔)
(3) یہ تعبیر مشهور اور متعصب مفسر موٴلف المنارنے بھی سورہٴ توبہ آیت ۱۰۰۔کے ذیل میں ذکر ہے ۔
(4) سورہ مریم آیت۱۲۔
(5) سورہٴ مریم آیت ۳۰۔
(6) الغدیر ج۲ ص ۲۴۰۔