امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور انقلابی دور تھا
امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور انقلابی دور تھا۔وہ بیج بنی امیہ سے نفرت کے جو حضرت امام حسین(ع)کی شھادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیئے تہے اب پورے طور پر بارآور ھو رہے تہے۔اموی تخت سلطنت کو زلزلہ تھا اور اموی طاقت روزبروز کمزور ھو رھی تھی اس دور میں بار بار ایسے مواقع آتے تہے جن میں کوئی جذباتی آدمی ھوتا تو فوراً ھوا کے رخ پر چلا جاتا اور انقلاب کے وقتی فوائد سے متمتع ھونے کے لئے خود بھی انقلابی جماعت کے ساتھ منسلک ھو جاتا۔ پھر جبکہ اسی ذیل میں ایسے اسباب بھی وقتاً فوقتاً پیدا ھوتے تہے۔ جو بنی امیہ کے خلاف اس کے جذبات کو مشتعل کرنے والے ھوں۔
زید بن علی بن الحسین (ع ) حضرت امام جعفر صادق (ع ) کے چچا تہے خود بھی علم و ورع واتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تہے۔ یہ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے ہیں اور وہ بھی حضرت امام حسین(ع)کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ۔ یہ کیا ایسا موقع نہ تھا کہ حضرت امام جعفر صادق(ع)بھی چچا کے ساتھ اس مھم میں شریک ھو جائیں۔ پھر اس کے بعد زید(ع)کا شھید کیا جانااور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو قلم کرنے کے بعد جسد بے سر کو ایک عرصہ تک سولی پر چڑھائے رکھا تھا پھر آگ میں جلا دیا گیا۔ اس کے اثرات عام انسانی طبیعت میں کیا ھیجان پیدا کر سکتے ہیں؟
اور پھر عباسیوں کے ھاتہ سے انقلاب کی کامیابی اور سلطنت بنی امیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانا۔
اس تمام دور انقلاب میں ھر دن نئے نئے محرکات اور گوناگوں نفسانی مھیجات ہیں جو ایک انسان کو متحرک بنانے کے لئے کافی ہیں خصوصاً اس لئے کہ بنی عباس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا ابو سلمہ خلال اولاد فاطمہ زھرا(ع)کی محبت کے ساتھ اتنا مشھور تھا کہ برسراقتدار آنے کے لئے امام جعفر صادق(ع)کے پاس تحریری عرضداشت بھیجی مگر آپ نے اس سے نہ صرف یہ کہ بے اعتنائی برتی بلکہ اس کاغذ کو اس شمع کی لو کے سپرد کر دیا جو اس وقت روشن تھی۔ اور قاصد سے فرمایا کہ اس تحریر کا بس یھی جواب ہے اور پھر اسے پورے طویل دور انقلاب میں ایک دن ایسا نہیں آتا جو حضرت امام جعفر صادق(ع)میں کوئی حرکت پیدا کر سکا ھو۔ سوا علوم اھل بیت(ع)کے تحفظ و اشاعت کی اس مھم کے جس کی کھل کر ابتداء آپ کے والد ماجد نے کر دی تھی اور اب اسی کو اپنی نسبتہ طویل عمر اور اس وقت کے انقلابی حالات کے وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پورے طور سے فروغ دینے کا موقع حضرت امام جعفر صادق(ع)کو ملا۔ جس کے نتیجہ میں مذھب اھلِ بیت(ع)عوام میں ”ملت جعفری“ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
یہ کیا تھا؟ یہ وھی جذبات سے بلند ھونے کا قطعی مشاھدہ ہے جسے ”معراج انسانیت“ کی حیثیت سے ھم ان کے تمام پیش روؤں میں دیکھتے رہے ہیں۔
بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول(ع)کو سکون رھا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ھی پھر فضا مکدر ھو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ھم نے شکست دی ہے وہ اولاد فاطمہ(ع)کے ساتھ ھمدردی ھی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکہیںکھل جائیں۔ اور وہ اسی طرف جھک جائیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ھونے کے بعد جب بنی ھاشم نے مدینہ میں جمع ھو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن(ع)کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اھل قرار دیا تھا اورسب نے ان کے ھاتہ پر بیعت کی تھی۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ھاتہ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی ترکیبوں سے اس کارروائی کو نسیاً منسیا کرکے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ھو گئے اس لئے بھت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکہ میں کھٹک رھا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصیت سے اولاد امام حسن (ع)کے خلاف ظلم و تشدد شروع کر دیا گیا۔
عبداللہ بن الحسن(ع)جو عبداللہ المثنی کے نام سے مشھور تہے۔ امام زین العابدین کے بھانجے یعنی فاطمہ بنت الحسین (ع)کے صاحبزادے تہے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشھور تہے جناب فاطمہ بنت الحسین(ع)کے پوتے تہے۔
منصور نے تمام سادات حسنی کو قید کردیا اور خصوصیت سے عبداللہ المحض کو پیرانہ سالی کے عالم میں اتنے سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنھائی میں محبوس کیا کہ الحفیظ والامان۔
ظاھر ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (ع)قلبی طور پر ان حضرات سے غیرمتعلق نہ تہے چنانچہ یہ واقع ہے کہ جس دن اولاد حسن(ع)کو زنجیروں سے باندہ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پھنا کر بے کجا وہ اونٹوں پر سوار کرکے مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق(ع)اس منظر کو دیکہ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رہے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراھیم کچھ دن پھاڑوں کی گھاٹیوںمیں چھپے رہے پھر ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق ایک جماعت کو اپنے ھمراہ لے کر مقابلہ پر آماد ھوئے اس موقع پر یہ واقعہ یاد رکھنے کا ہے کہ رائے عامہ محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ھو رھی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق(ع)اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر باوجود تمام جذباتی تقاضوں کے اس مھم سے علیٰحدہ رہے۔ اور آپ نے اپنے دامن کو اس کشمکش سے بالکل ھی بچائے رکھا۔ آپ جانتے تہے کہ یہ مھم وقتی حالات کی بنا پر اضطراری فعل کے طور پر شروع کی گئی ہے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نہیں ہے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے لیکن میں نے اگر اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول کی اشاعت کے طور پر انجام دے رھا ھوں دروازہ مسدود ھو جائے گا۔
یہ بے پناہ ضبط و صبر وھی ہے جو ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا رھا تھا اور وہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔