• صارفین کی تعداد :
  • 6857
  • 6/1/2008
  • تاريخ :

دربار یزید میں امام سجاد(ع) کا تاریخی خطبہ

 

یا علی بن الحسین

روضۃ الاحباب میں منقول ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نےیزیدسے کہاکہ اے یزید میرے باپ اوراعزاء کے سرمجھے دیدے تاکہ ان کے بدن سے ملحق کرکے دفن کروں اورمجھ کو مع زنان اہلبیت(ع) مدینےجانے دے کہ وہاں اپنے جدامجد حضرت محمد (ص) کے روضے کی مجاورت اوراپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہوں ـ

 

 نیزکل بروزجمعہ مجھے اس قدرموقع دے کہ منبرپر جاکر خدا اور رسول (ص)کی مدح وثنا اداکروں ـ یزید نے ان باتوں کو منظور کیا ـ جب دوسرا دن ہوا توامام زین العابدین علیہ السلام نے منبر پرجاکرایسا فصیح وبلیغ خطبۂ ارشاد فرمایا :

کہ لوگ متحیر ہو گۓ اورایسے مؤثر طریقہ سے مقاصد وعظ وپند بیان فرماۓ کہ سنگ دلوں کے دل بھی موم کی طرح پگھلنے لگے اس کے بعد اہل شام سے خطاب کرتے ہوئےارشاد فرمایا  کہ اے اہل شام تم میں جو مجھے نہ جانتا ہو وہ جان لے کہ میں فرزند رسول(ص) مختار ہوں ـ میں فرزند سرور اخیارہوں ـ

میں فرزند سردار یثرب وبطحا ہوںـ میں شہسوار میدان ہل اتی ہوں میں سبط رسول اکرم امام حسن مجتبی کا فرزند ہوں نور دیده محمد مصطفے(ص) سرور سینہ مرتضی (ع) اور خنکئ چشم فاطمہ زہرا (س) مبتلا ئے کرب وبلا حسین شہید کربلا کا بیٹا ہوں ـ اتنا سننا تھا کہ اہل مجلس چیخ مار مار کر رونے لگے ـ یزید نے خائف ہوکرمؤذن کو اذان کہنے کا اشارہ کیاـ مؤذن نے اٹھ کر کہا اللہ اکبر امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ الحق کوئی شۓ اس کی شان سے بزرگ تر نہیں ہےـ مؤذن نے کہا اشھدان لا الہ الا اللہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا سچ ہے میرا گوشت وپوست اس کا شاہد ہے پھر مؤذن نے کہا اشھد ان محمد رسول اللہ تو امام زین العابدین علیہ السلام نے عمامہ سرسے اتار کر پھینک دیا اورفرمایا کہ :

اے مؤذن تجھے انھیں محمد(ص) کی قسم ذرا ٹھرجا ـ یہ کہکر یزید سے خطاب کیااورفرمایا کہ اے معاویہ کے بیٹے سچ بتا کہ یہ محمد رسول اللہ (ص) میرے جد ہیں یا تیرے اگرتواپنا جد بتاۓ تو صریح جھوٹ ہے اور اگر میرا جد کہے تو پھر تونے میرے پدربزرگوار کوجو بہترین آل رسول تھے کیوں شہید کرایا ـ

 کیوں ان کی مخدرات عصمت وطہارت کو گنہگارقیدیوں کی طرح شہر بشہر پھرایا ـ کیوں مجھے یتیم کیا اورکیوں میرے جدکے دین میں رخنہ ڈال دیا ـ یہ کہہ کے امام زین العابدین علیہ السلام نے گریبان چاک کرڈالا اورحاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ :

تم کو خدا کی قسم سچ بتاؤ میرے سوا تم میں کوئی ایسا ہے جس کا جد خدا کا نبی(ص) اور حبیب رہا ہو ـ یہ سنکر اہل شام اسقدر روۓ کہ ان میں سے اکثر بیہوش ہوگۓ یزید نے ڈرکر مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دیا ـ چنانچہ اقامت کے بعد سب نماز میں مشغول ہوگۓ -

 بعض روایات میں مذکور ہے کہ یزید نے نعمان بن بشیر کو حکم دیا کہ تیس سواروں کی جمعیت ساتھ لیکراہلبیت رسالت کو مدینے پہنچا آئے اور جب بیسویں صفر کو یہ قافلہ مع سر ہائے شہداء کربلا پہنچا تو امام زین العابدین (ع) نے امام حسین (ع) اور دیگر شہدا کے سروں کو ان کے بدن سے ملا کر وہاں دفن فرمایا ۔