عبداللہ بن عباس
عبداللہ بن عباس رسول خدا (ص)کے چچا زاد بھائی اور نامور مفسرین قرآن میں سے ہیں۔
ابن عباس نے پیغمبر ‘ امام علی‘ امام حسن و حسین علیھم السلام سے روایات کو نقل کیا ہے۔ آپ بعثت کے گیارھویں سال پیدا ہوئے اور 69 ئہجری 71سال کی عمر میں فوت ہوئے محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ابن عباس عمر کے آخری حصہ میں نابینا ہو گئے۔ بعض نے آپ کی نابینائی کی علت کو امام علی و امام حسن و حسین علیھم السلام پر بہت زیادہ گریہ کرنا کو بیان کیا ہے اور بعض نے امام حسنین کی مدد نہ کرنے کو بیان کیا ہے۔
امام علی کی حکومت میں آنحضرت کے ساتھیوں میں سے تھے اور خوارج کے ساتھ بحث و گفتگو کے لئے آپ کے نمائندہ مقرر ہوئے اور جنگ جمل میں آپ کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت عائشہ کے پاس گئے اور ایک مدلل گفتگو کے بعدآپ کو مدینہ جانے کے لئے کہا۔
امام علی نے حکمیت کے مسئلہ میں پہلے عبداللہ بن عباس کو ہی مقرر کیا اورآ پ کی توصیف میں فرمایا
”فان عمراً لا یعقد عقدة حلھا عبداللّٰہ ولا یحل عقدة الا عقدھا و لا یلبرم امرا الانقضہ و لا نیقض امرا الاابرمہ“
لیکن خوارج نے آپ کی مخالفت کی اور مجبوراً ابو موسیٰ اشعری کو مقرر کیا۔ ابن عباس ایک متین اور زبان رسا شخص تھے اور علم فقہ‘ تفسیر‘ تاویل ‘ انساب اور شعر میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ آپ کا شمار حضرت امام علی کے لائق شاگردوں میں سے ہوتا تھا۔ آنحضرت نے آپ کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ اے پروردگار اسے دین کی آگاہی دے۔
علامہ حلی آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں وہ امام علی کے ساتھی اور شاگرد تھے اور امام علی کے ساتھ آپ کا اخلاص اور وفاداری کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ ابن داؤد حلی رضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ سے آپ کو یاد کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کی مذمت کے بارے میں بھی کچھ ارشادات ہیں۔ بصرہ کے بیت المال کے انچارج کی حیثیت سے آپ کی برطرفی اور امام علی کا عتاب انگیز خط بھی علماء رجال کی توجہ کا باعث بنا ہے بعض علماء نے اس حدیث کو مردو جانا ہے۔ امام علی کے ساتھ آپ کی محبت کی وجہ سے اس جیسی جھوٹی احادیث گھڑی گئیں۔
بعض دیگر علماء بھی اس قسم کی روایات کی نفی نہیں کرتے بلکہ معتقد ہیں کہ آپ معصوم نہ تھے اور امام علی حکومتی امور میں کسی کا لحاظ نہ کرتے تھے ان سب کے باوجود معروف شیعہ علماء آپ کو جلیل القدر‘ بلند مرتبہ‘ ثقہ‘ امام علی اور امام حسنین کا دفاع کرنے والے سمجھتے ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے سعد بن عبادہ یاسر‘ ابوزرغفاری‘ ام سلمہ نے روایات کو سنا ہے اور ابو سعید خدری‘ عبداللہ بن جعفر‘ سعید بن جبیہ‘ عکرمة اور دوسروں نے آپ سے روایات نقل کی ہیں.