گذر گئے تھے کئی دن کہ گھر میں آب نہ تھا |
مگر حسین(ع) سے صابر کو اضطراب نہ تھا |
نمود و بودِ بشر کیا محیطِ عالم میں |
ہَوا کا جب کوئی جھونکا چلا حباب نہ تھا |
فشار سے جو بچا َمیں ہُوا زمیں کو عجب |
صدا یہ قبر نے دی حکمِ بوتراب(ع) نہ تھا |
اگر بہشت میں ہوتے نہ کوثر و تسنیم |
تو رونے والوں کی آنکھوں کا کچھ جواب نہ تھا |
نہ جانے برق کی چشمک تھی یا شرر کی لپک |
ذرا جو آنکھ جھپک کر کھُلی شباب نہ تھا |
حسین(ع) اور طلبِ آب اے معاذ اللہ |
تمام کرتے تھے حجت سوالِ آب نہ تھا |
جسے نبی(ص) نے بُلایا، ہُوا وہ نخل نہال |
ثمر اسے بھی دئیے جو کہ باریاب نہ تھا |
علی(ع) کے پائے مبارک نے جو ضیا پائی |
وہ نور حضرتِ موسیٰ(ع) کو دستیاب نہ تھا |
ہر اک کے ساتھ ہے روشن دلو طلوع و غروب |
سحر کو چاند نہ تھا شب کو آفتاب نہ تھا |
فقط حسین(ع) کے بچوّں پہ بند تھا پانی |
بہت قریب تھی وہ نہر قحطِ آب نہ تھا |
یزید تخت پہ تھا اور تلے حسین(ع) کا سر |
اُلٹ گیا تھا زمانہ یہ انقلاب نہ تھا |
برہنہ اونٹ پہ سیدانیاں تھیں بلوے میں |
وہ دیکھتے تھے تماشہ جنھیں حجاب نہ تھا |
وہ لوگ جمع تھے قتلِ حسین(ع) پر کہ جنھیں |
خدا سے خوف محمد(ص) سے کچھ حجاب نہ تھا |
اُدھر تھی ذاتِ خدا اور اِدھر رسول کریم (ص) |
سوائے پردۂ چشم اور کچھ حجاب نہ تھا |
ہم اس زمیں پہ ہوئے دفن اے خوشا قسمت |
سوائے رحمتِ باری جہاں حجاب نہ تھا |
انیس عمر بسر کردو خاکساری میں |
کہیں نہ یہ کہ غلامِ ابوتراب(ع) نہ تھا |