• صارفین کی تعداد :
  • 5883
  • 7/29/2016
  • تاريخ :

امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت  ( حصّہ سوّم )

يا جعفربن محمد

بني اميہ کے خلاف عوامي رد عمل اور بني عباس
 بنو عباس نے سياسي حالات سے فائدہ اٹھاتے ھوئے خود کو خوب مستحکم و مضبوط کيا، يہ تين بھائي تھے ان کے نام يہ ھيں۔ ابراھيم امام، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر منصور يہ تينوں عباس بن عبدالمطلب کي اولاد سے ھيں۔ يہ عبداللہ کے بيٹے تھے۔ عبداللہ بن عباس کا شمار حضرت علي عليہ السلام کے اصحاب ميں سے ھوتا ھے۔ اس کا علي نام سے ايک بيٹا تھا اور علي کے بيٹے کا نام عبداللہ تھا" پھر عبداللہ کے تين بيٹے تھے۔ ابراھيم، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر، يہ تينوں بہت ھي با صلاحيت، قابل ترين افراد تھے۔ ان تينوں بھائيوں نے بني اميہ کے آخري دور حکومت ميں بھر پور طريقے سے فائدہ اٹھايا۔ وہ اس طرح کہ انھوں نے خفيہ طور پر مبلغين کي ايک جماعت تيار کي اور پس پردہ انقلابي پروگرام تشکيل دينے ميں شب و روز مصروف رھے اور خود حجاز و عراق اور شام ميں چھپے رھے، ان کے نمائندے اطراف و اکناف ميں پھيل کرامويوں کے خلاف پروپيگنڈا کرتے تھے، خاص طور پر خراسان ميں ايک عجيب قسم کا ماحول بن چکا تھا ليکن ان کي تحريک کا پس منظر منفي تھا يہ کسي اچھے انسان کو اپنے ساتھ نہ ملاتے يہ آل محمد (ص) کے گھرانے ميں صرف ايک شخصيت کا نام استعمال کر کے لوگوں کو اپني طرف متوجہ کرتے? اس سے معلوم ھوا کہ عوام کي توجہ کا مرکز آل محمد (ص) ھي تھے ان عباسيوں نے ايک کھيل کھيلا کہ ابو مسلم خراساني کا نام استعمال کيا اس سے ان کا مقصد ايراني عوام کو اپني طرف متوجہ کرنا تھا۔
وہ قومي تعصب پھيلا کر بھي لوگوں کي ھمدردياں حاصل کرنا چاھتے تھے، وقت کي قلت کے پيش نظر ميں اس مسئلہ پر مزيد روشني نھيں ڈالنا چاھتا، البتہ ميرے اس مدعا پر تاريخي شواھد ضرور موجود ھيں۔ ان کو بھي لوگ بالکل پسند نھيں کرتے تھے۔ ليکن بني اميہ سے نجات حاصل کرنے کيلئے وہ ان کو اقتدار پر لے آنا چاھتے تھے۔ بني اميہ ھر لحاظ سے اپنا مقام کھو چکے تھے، اگر چہ بني اميہ ظاھري طور پر خود کو مسلمان کہلواتے تھے ليکن ان کا اسلام سے دور تک واسطہ نہ تھا  خراسان ميں ان کا اثر و رسوخ بالکل نہ تھا کہ لوگوں کو اس وقت کي حکومت کے خلاف اکٹھا کر سکيں اور خراسان کي فضا ميں ايک خاص قسم کا تلاطم پيدا ھو چکا تھا، اگر چہ يہ لوگ چاھتے تھے کہ خلافت اور اسلام ھر دونوں کو اپنے پروگرام سے خارج کر ديں، ليکن نہ کرسکے، اور يہ اسلام کي بقاء اور مسلمانوں کي ترقي کا نام استعمال کر کے آگے بڑھتے گئے اور سال کے پہلے دن مرو کے ايک قصبے"سفيد نج" ميں اپنے قيام کا رسمي طور پر اعلان کيا  عيد الفطر کا دن تھا  نماز عيد کے بعد اس انقلاب کا اعلان کيا گيا، انھوں نے اپنے پرچم پر اس آيت کو تحرير کيا اور اسي آيہ کو اپنے انقلابي اھداف کا ماٹو قرار ديا:
"اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا وان الله علي نصرهم لقدير" 25
"جن (مسلمانوں) سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھيں بھي (جھادکي) اجازت دے دي گئي اور خدا تو ان لوگوں کي مدد پر يقيناً قادر (و توانا) ھے"
پھر انھوں نے سورہ حجرات کي آيہ نمبر کو اپنے منشور ميں شامل کيا ارشاد خداوندي ھے:
"يا ايهاالناس انا خلقناکم من ذکر و انثي و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عندالله اتقکم"
لوگو ھم نے تو سب کو ايک مرد اور ايک عورت سے پيدا کيا اور ھم نے تمھارے قبيلے اور برادرياں بنائيں تاکہ ايک دوسرے کو شناخت کر سکيں اس ميں شک نھيں کہ خدا کے نزديک تم سب سے بڑا عزت دار وھي ھے جو بڑا پرھيز گار ھو" ( جاري ہے )