امام حسين (عليہ السلام) کيوں فراموش نہيں ہوتے؟ ( حصّہ سوّم )
1- قوم پرستي کا مسئلہ جس کو اسلام نے ختم کر ديا تھا ، بعض خلفاء کے ذريعہ دوبارہ زندہ ہو گيا اورعرب قوم کي غير عرب کے اوپر ايک خاص برتري قائم کردي گئي-
2- مختلف طرح کي اونچ نيچ : روح اسلام کبھي بھي اونچ نيچ کو پسند نہيں کرتي ، ليکن بعض خلفاء نے اس کو دوبارہ آشکار کر ديا اور ”بيت المال“ جو پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ) کے زمانے ميں مسلمانوں کے درميان مساوي طور سے تقسيم ہوتا تھا اس کو ايک دوسري شکل ديدي اور بہت سے امتيازات بغير کسي وجہ کے کچھ لوگوں کو ديدئيے اور طبقاتي امتياز دوبارہ ايجاد ہو گئے-
3- پوسٹ اور مقام جو پيغمبر اکرم(صلي اللہ عليہ و آلہ) کے زمانے ميں علمي ، اخلاقي لياقت اور معنوي اہميت کي بنياد پر تقسيم کيا جاتا تھا ، اس کو قوم و قبيلہ ميں بانٹ ديا گيا ، اور خلفاء کے خاندان و قبيلہ والوں ميں تقسيم کر ديا-
اسي زمانے ميںابو سفيان کا بيٹا ”معاويہ“ بھي حکومت اسلامي ميں آ گيا اور اسلامي علاقہ کي حساس ترين پوسٹ(شام) کي گورنري اس کو ديدي اور اس طرح جاہليت کے باقي ماندہ افراد ، حکومت اسلامي پر قبضہ کرنے اور جاہليت کي سنتوں کوقائم و دائم کرنے کيلئے تيار ہو گئے-
يہ کا م اس تيزي کے ساتھ ہوا کہ پاک و مطہر شخصيتوں جيسے حضرت علي(عليہ السلام) کو خلافت کے دوران مشغول کر ديا-
اسلام کے خلاف اس حرکت کا چہرہ اس قدر آشکار و واضح تھا کہ اس کي رہبري کرنے والے بھي اس کو چھپا نہ سکے-
جس وقت خلافت بني اميہ اور بني مروان ميں منتقل ہورہي تھي اس وقت ابوسفيان نے ايک عجيب تاريخي جملہ کہا تھا:
اے بني اميہ! کوشش کرو اس ميدان کي باگ ڈور کو سنبھال لو(اور ايک دوسرے کو ديتے رہو)قسم اس چيز کي جس کي ميں قسم کھاتا ہوں بہشت و دوزخ کوئي چيز نہيں ہيں!(اور محمد کا قيام ايک سياسي قيام تھا)-
يا يہ کہ معاويہ عراق پر مسلط ہونے کے بعد کوفہ ميں اپنے خطبہ ميں کہتا ہے :
ميں يہاں پر اس لئے نہيں آيا ہوں کہ تم سے يہ کہوں کہ نماز پڑھو يا روزہ رکھو بلکہ ميں اس لئے آيا ہوں کہ تمہارے اوپر حکومت کروں جو بھي ميري مخالفت کرے گا ميں اس کو نابود کردوںگا- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
فرزند رسول حضرت امام حسين عليہ السلام کي حيات طيبہ پر ايک نظر
امام حسين (ع) کي لازوال تحريک