شہادت امام حسين (ع) کے بعد زينب کبري (س) کي تين ذمہ دارياں
مظلوم کربلا اباعبداللہ (ع)شہادت کے بعد زينب کبريٰ کي اصل ذمہ داري شروع ہوتي ہے -اگرچہ عصر عاشور سے پہلے بھي ذمہ دارياں انجام دے رہي تھيں- جن لوگوں کي سرپرستي آپ نے قبول کي تھي وہ ايسے افراد تھے کہ جن کا وجود اور زندگي خطرے ميں تھے - جن کا نہ کوئي گھر تھا جس ميں وہ آرام کرسکے ، نہ کوئي کھانا ان کے ساتھ تھا؛ جس سے اپني بھوک ختم کرسکے اور نہ کوئي پاني تھا ؛کہ جو ہر جاندار کي ابتدائي اور حياتي ترين مايہ حيات بشري ہوا کرتا ہے ؛اور يہ سب ايسے لوگ تھے جن کے عزيز و اقارب ان کے نظروں کے سامنے خاک و خون ميں نہلائے جا چکے تھے- ايسے افراد کي سرپرستي قبول کرنا بہت ہي مشکل کام تھا، اسي طرح خود ثاني زہرا (س)بھي اپنے بيٹوں اور بھائيوں کي جدائي سے دل داغدار تھي ؛کيسے برداشت کرسکتي تھيں ؟! يہي وجہ تھي کہ سيد الشہد ا(ع) نے آپ کے مبارک سينے پر دست امامت پھيرا کر دعا کي تھي کہ خداان تمام مصيبتوں کو برداشت کرنے کي انہيں طاقت دے - اور يہي دعا کا ا ثر تھا کہ کربلا کي شيردل خاتون نے ان تمام مصيبتوں کے ديکھنے کے باوجود عصر عاشور کے بعد بھيا عباس کي جگہ پہرہ دار ي کي اور طاغوتي حکومت اور طاقت کي بنياديں ہلاکر رکھ ديں-اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک ميں ملا کر رکھ ديں :شہيد محسن نقوي لکھتے ہيں:
پردے ميں رہ کے ظلم کے پردے الٹ گئي
پہني رسن تو ظلم کي زنجير کٹ گئي
نظريں اٹھيں تو جبر کي بدلي بھي چھٹ گئي
لب سي لئے تو ضبط ميں دنيا سمٹ گئي -3-
1- امام سجاد(ع) کي عيادت اور حفاظت
ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کي چوتھي کڑي سيد السجاد(ع) ہيں ،چنانچہ عبيداللہ ابن زياد نے عمر بن سعد کو دستور ديا تھا کہ اولاد امام حسين (ع) ميں سے تمام مردوں کو شہيد کئے جائيں،دوسري طرف مشيت الہي يہ تھي کہ مسلمانوں کيلئے ولايت اور رہبري کايہ سلسلہ جاري رکھا جائے ، اس لئے امام سجاد (ع) بيمار رہے اور آپ کا بيمار رہنا دوطرح سے آپ کا زندہ رہنے کيلئے مدد گار ثابت ہوئي-
1- امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بيماري کي وجہ سے آپ سے ساقط ہوا -
2- دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمينہ فراہم کرنا تھا جو بيماري کي وجہ سے ممکن ہوا- پھر سوفيصد جاني حفاظت کا ضامن تو نہ تھا کيونکہ خدا تعالي نہيں چاہتا کہ ہر کام معجزانہ طور پر انجام پائے بلکہ جتنا ممکن ہو سکے طبيعي اور علل واسباب مادي اور ظاہري طور پر واقع ہو- ( جاري ہے )
بشکریہ شفقنا ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
فاطمہ (س) اپنے والد کي وفات کے بعد زيادہ دن زندہ نہ رہيں
حضرت نرجس (س) بادشاہ روم کي بيٹي ہيں