• صارفین کی تعداد :
  • 4843
  • 11/13/2013
  • تاريخ :

فلسفہ شہادت اور واقعہ کربلا

فلسفہ شہادت اور واقعہ کربلا

1435 ھ کا سال ہر سال کي مانند محرم الحرام کي سرخي لئے وقت کے افق پر نمودار ہو چکا ہے- وقت کا وہ سفر جو کبھي رکا نہيں، ابھي تک جاري ہے اور تا وقت نامعلوم جاري رہے گا- دنيا ميں رائج ديگر کيلنڈروں ميں نئے سال کا آغاز ايک نئي زندگي کي علامت کے طور پر ليا جاتا ہے- چنانچہ يہي وجہ ہے کہ دنيا کے مختلف خطوں ميں لوگ اپنے اپنے نئے سال کے آغاز کو ايک جشن کي صورت ميں مناتے ہيں- بلکہ يہ کہنا بھي بے جا نہ ہوگا کہ جتني دھوم دھام سے نئے سال کي تقريبات منعقد کي جاتي ہيں، شايد اتنے زور و شور اور دھوم دھام سے مذہبي تہوار بھي نہيں منائے جاتے- ليکن اسي دنيا کي سوا ارب سے زائد آبادي پر مشتمل عالمِ اسلام کے سالِ نو کا آغاز اپني تقويم کے رائج ہونے کے اکسٹھويں سال سے غم و اندوہ اور اضطراب و بے چيني کي کيفيات کے ساتھ منايا جاتا رہا ہے اور تاوقتِ قيامت اس ميں خوشي اور انبساط کي کيفيت کو تلاش کرنا ايک سعي لاحاصل ہي رہے گي- جہاں دوسري اقوام اپنے نئے سال کا جشن مناتي ہيں، وہيں ايک قوم اپني نئے سال کا آغاز بھي فطري انداز يعني رونے سے کرتي ہے-

رسولِ اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اس دنيا سے رحلت کر جانے کے محض پچاس سال کے اندر اندر آپ کے خون پسينے سے سينچے گئے دينِ خدا کے نوزائيدہ گلشن پر وحشيانہ حملے ہوئے اور تدريجاً دينِ اسلام پر ايسا برا وقت آ پڑا کہ اس کي ڈوبتي نبضوں کو سنبھالا دينے کے لئے نواسۂ رسول حضرت امام حسين عليہ السلام کو حتمي اور آخري اقدام کے طور پر اپنا، اپنے اہل و عيال اور اپنے رفقاء کا خون عطيہ کرنا پڑا- محرم سنہ 61 ھ ميں کربلا کي زمين ميں خانوادۂ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا جذب ہونے والا پاکيزہ لہو دراصل شفق پر سرخي بن کر چھا گيا اور اس معطر لہو کي مہک دو عالم ميں پھيل گئي- صدياں بيت گئيں ليکن حسين کا غم بدستور تازہ ہے اور عاشقان اہل بيت آج بھي عقيدت و احترام سے مجالس عزا کا انعقاد کرتے ہيں-

 بقول علامہ اقبال:

يہ شہادت گہ الفت  ميں  قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے  ہيں  مسلماں ہونا

يہ دراصل اس جنگ کا تسلسل ہے جو روزِ ازل سے رحمٰن و شيطان کے درميان شروع ہوئي اور روز حشر تک جاري رہے گي- اس جنگ کا عروج 10 محرم الحرام 61ھ کو کربلا کے ميدان ميں ہوا، جب حق اور باطل ايک دوسرے کے آمنے سامنے آئے - يہاں فتح و شکست کے معنٰي ہي بدل گئے- ايسا عجب معرکہ ہوا کہ ہر قسم کا اسلحہ اپني بھرپور قوت دکھا کر بھي شکست خوردہ رہا اور بہتا ہوا لہو شمشير پر غالب آگيا- يہ ايسي جنگ تھي جس کے بظاہر فاتحين اپنے مفتوحين کے سروں سے سجے پرچم اٹھا کر اپني فتح کا اعلان کرنے چلے، ليکن انہي مقدس سروں کي وارث کچھ بے ردا سروں والي عفت مآب ہستيوں نے فتح کا اصل معنٰي سارے جہان کو کچھ اس انداز ميں سمجھانا شروع کيا کہ دنيا کو يزيديت کا اصل چہرہ دکھائي دينے لگا اور جسکي قسمت ياور رہي، وہ حسين عليہ السلام کا عزادار بنتا چلا گيا-

حقيقت يہ ہے کہ حسين (ع) کسي ايک مسلک و فرقے کا نہيں- حسين (ع) انسان اور انسانيت کے ہيرو کا نام ہے- يہ بات 10 محرم 61ھ کو واضح ہوگئي تھي کہ جہاں جھوٹ، فريب، فتنہ، فساد اور لوٹ مار ہوگي وہاں يزيد ہوگا اور جہان حق ہي حق ہو، وہ حسين (ع) کي سلطنت ہوتي ہے- خانوادۂ رسول پر پڑنے والے مصائب کي ياد منانا اور اپنے اپنے انداز ميں اس کا اظہار کرنا ہر شخص کا ذاتي فعل، اسکي معرفت کے معيار کا عکاس اور اس کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہے-

انسان کا تعلق چاہے کسي بھي مسلک اور فرقے سے ہو يا وہ کوئي بھي نقطۂ نظر رکھتا ہو، کربلا وہ واحد نقطۂ اشتراک ہے جہاں تمام مسلمان صديوں سے متفق ہيں- ليکن طاغوتي سازشوں نے عقائد پر حملہ کر کے مسلمانوں سے ان کي وحدت چھيننے کي کوشش کي ہے- اب يہ ہماري ذمہ داري ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانيں اور اپنے اتحاد کے ذريعے اس کي سازشوں کو ناکام بنا ديں- انداز ِ عزاداري جو بھي ہو، يہ اتنا اہم نہيں- اہم تو تعلق اور روحاني وابستگي ہے-(جاری ہے)

 


متعلقہ تحریریں:

عزادار حسين عليہ السلام کے آنسوۆں کي عظمت

عاشقان حسين عليہ السلام کے ليۓ انعام