حکومت شير کي
دہر ميں ضرب المثل ہے کيونکہ قوت شير کي
ہے جبھي جنگل ميں قائم بادشاہت شير کي
ريچھ، گينڈا، نيل گائے، سب کھڑے ہيں سر جھکائے
کون ہے جو مول سکتا ہے رقابت شير کي
اس کو ڈکٹيٹر کہا کرتي ہے حزبِ اختلاف
آمريت کے مشابہ ہے حکومت شير کي
جرم ہيں واں، تبصرہ، تنقيد اور جلسے جلوس
لازمي ہر جانور پر ہے اطاعت شير کي
جانور لڑتے جھگڑتے آئيں جب دربار ميں
کھا کے قصہ پاک کرتي ہے عدالت شير کي
صبح دم کرتا ہے وہ اکثر ہرن کا ناشتہ
بيل سے پھر دن ميں ہوتي ہے ضيافت شير کي
شام کي چائے ميں کام آتے ہيں اکثر شتر مرغ
اور ڈنر ميں گائے سے ہوتي ہے دعوت شير
بس زباني جمع خرچي سے نہيں بنتے ہيں کام
قلب ميں پيدا کرو اے دوست ہمت شير کي
بکريوں کے درمياں جو پرورش پائے تو پھر
کس طرح آخر بنا پائے وہ صورت شير کي
دم دبا کر بھاگ جائے آج بھي رو باہِ کفر
اہلِ ايماں گر اثر اپنائيں جرات شير کي
تحرير: شاہين اقبال اثر
پيشکش: شعبہ تحرير و پبشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
يقيناً خود پہ اتراتا ہے بکرا