حضرت ابراہيم (ع)
حضرت ابراہيم (ع) آج سے تقريباً چار ہزار سال پہلے بابل كے ايك شہر"اور" ميں پيدا ہوئے تھے- بابل كي سرزمين پر "نمرودبن كنعان" نام كا بادشاہ حاكم تھا وہ ظالم و خود خواہ تھا اور خود كو لوگوں كا خدا سمجھتا تھا- وہ لوگوں سے چاہتا تھا كہ اس كے فرمانبردار اور بندہ بے دام رہيں اور صرف اسي كي اطاعت و ستائش كريں-
اس سرزمين پر بت پرستي بھي رائج تھي اور معمولاً اس طرح كے حكام بت پرستي، سحرو جادو كے عقائد، مقدرات اور ان پرستاروں كے اثرات اور اسي طرح كے دوسرے خرافات كي زيادہ سے زيادہ ترويج كرتے ہيں، يا كم از كم اس طرح كے اوہام زدہ رواج سے لاتعلق رہتے ہيں- كيونكہ اس طرح كے عقائد لوگوں كي جہالت اور معاشرہ كي فكري عقب ماندگي كا سبب بنتے ہيں اور عموماً موقع پرست افراد لوگوں كي جہالت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہيں- اور لوگوں كي جہالت و كوتاہ فكري ان كے لئے ماحول كو زيادہ سازگار كرتي ہے- ايك طرف تو انسان چاہے يا ان چاہے طور پر- مذہبي احساسات اور ديني سرشت و جبلّت ركھتا ہي ہے- اب اگر يہ احساسات پتھر ، درخت، ستاروں اور اسي كے مانند دوسري چيزوں كي طرف مائل ہوگئے تو پھر باقي اجتماي، اقتصادي، قانون سازي اور ديگر اختيارات و فرائض خدايان زور و زر كے ہاتھوں ميں چلے جاتے ہيں اور ان كے تاخت و تازكي را ہيں ہموار ہوجاتي ہيں اور جب اس كے برخلاف لوگوں كے ديني احساسات ايك قادر و توانا، حاضر و ناظر اور رحمٰن و رحيم- خدا كي جانب مائل ہوتے ہيں- يعني لوگ جب اس خدا كي طرف متوجہ ہوتے ہيں جو خلقت كي ہدايت كے لئے انبياء كو بھيجتا ہے اور انہيں جواب دہ قرار ديتا ہے، سب كو ايك برابر سمجھتا ہے اور آقائي وبندگي اور حاكميت و نوكري كا تصور انسانوں كے درميان سے دور فرماديتا ہے تو ايسے ديني و فكري ماحول ميں خود غرض اور ظالم افراد كي طاقت ٹوٹ جاتي ہے اور وہ اپنے منافع پر خطرات كے بادل منڈلاتے ہوئے ديكھتے ہيں-
حضرت ابراہيم (ع) كي دعوت كے زمانہ ميں بعض ايسے افراد تھے جو "زہرہ" ستارہ كو اپنا پروردگار سمجھتے تھے، بعض چاند كو اور بعض سورج كو معبود جانتے تھے- اس طرح كي پرستش و عبادت كا تصوّر علم نجوم كي ترقي اور لوگوں كے درميان اس كے نفوذ اور انسانوں كے مقدرات پر سعد و نحس كي شكل ميں ان كے اثرات كے تحت تھا- يہي وجہ تھي كہ آسمان كے بعض سيارے انسانوں كے معبودكي شكل اختيار كرگئے تھے- خاص طور سے سورج جو نور و حرارت اور اميد و حيات كا سرچشمہ ہے اور تاريكي و وحشت اور سردي و خاموشي كو روشني و مسرت اور گرمي و جوش و ولولہ ميں تبديل كرديتا ہے يا چاند جس سے پيدا ہونے والي ملائم روشني اور شاعرانہ منظرخاص طور سے تيرہويں اور چودہويں راتوں ميں تاريك صحراۆں اور بيابانوں كے اندر ايك الہام بخش ماحول اور نشاط آور كيفيت پيدا كرديتا ہے- اور وہ بھي ايك ايسے انسان كے لئے جو حددرجہ جاہل اور نادان ہے، دنيا جس كے لئے سراسر ابہام و اسرار ہے-
بت پرستي اكثر قبائل كے افراد كے رئيس قبيلہ يا بزرگ خاندان كے شديد احترام كے باعث بھي وجود ميں آتي ہے، لوگ ان كے احترام ميں يا ان كي يادوں كا تازہ ركھنے كے لئے ان كے مجسمے بناتے تھے او ريہي احترام رفتہ رفتہ خضوع و عبادت ميں تبديل ہوجاتا تھا- اور آخر كار يہ كنووں ياغار كے پتھر جو كسي خاص شكل ميں اميد بخش يا خوف و وحشت سے دوري كے اسباب بن جاتے تھے البتہ دنيا ميں انواع و اقسام كے بتوں اور ہر ايك كے وجود اور ان كي پيدائش كے اسباب و علل كي داستان بڑي مفصل ہے اور ان كے سلسلہ ميں بڑي دلچسپ تحقيقات سامنے آئي ہيں-
آية الله شہيد ڈاكٹر محمد جواد باہنر
مترجم: سيد احتشام عباس زيدي
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ عليہا کے بلند اوصاف