حضرت معصومہ عليہا السلام کا مدينہ سے قم تک کا سفر
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ عليہا کے بلند اوصاف
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ عليہا کي عظيم شخصيت
متعدد احاديث ميں قم کے تقدس پر تأکيد ہوئي ہے- امام صادق عليہ السلام نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار ديا ہے اور اس کي مٹّي کو پاک و پاکيزہ توصيف فرمايا ہے:-امام عليہ السلام فرماتے ہيں : "الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم"
آگاہ رہو کہ ميرا حرم اور ميرے بعد آنے والے پيشواۆں کا حرم قم ہے-
امام صادق عليہ السلام ہي اپني مشہور حديث ميں اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہيں:--- وان لاميرالمۆمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفه الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم--- = اور حضرت امير المۆمنين عليہ السلام کے لئے بھي ايک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے- جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہيں جن ميں سے تين دروازے قم کي جانب کھلتے ہيں-
امام عليہ السلام قم کے تقدس کي سلسلے ميں اپني حديث کو جاري رکھتے ہوئے فرماتے ہيں: "--- تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى عليهاالسلام و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة با جمعهم = ميرے فرزندوں ميں سے ايک خاتون – جن کا نام فاطمہ بنت موسي ہے – قم ميں رحلت فرمائيں گي جن کي شفاعت سے ہماري تمام شيعہ بہشت ميں وارد ہونگے"-
راوي کہتے ہيں کہ ميں نے يہ حديث امام موسي کاظم عليہ السلام کي ولادت سے بھي پہلے امام صادق عليہ السلام سے سني تھي- يہ حديث قم کے تقدس کا پتہ ديتي ہے اور قم کي شرافت و تقدس کے راز سے پردہ اٹھاتي ہيں؛ اور يہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف – جو روايات سے ثابت ہے - ريحانہ رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم، کريمہ اہل بيت سلام اللہ عليہا کے وجود مبارک کي وجہ سے ہے جنہوں نے اس سرزمين ميں شہادت پا کر اس کي خاک کو حور و ملائک کي آنکھوں کا سرمہ بناديا ہے-
حضرت امام رضا عليہ السلام نے اپني بہن کے نام خراسان سے خط بھجوايا تھا جس کے ملتے ہي بي بي نے رخت سفر باندھ ليا-
مذہبي شہر قم ميں داخلہ:
23 ربيع الاول 201 ھ- ق (ابھي تک اس دن حضرت معصومہء قم سلام اللہ عليہا کے قم داخلے کي يادتازہ کي جاتي ہے)-
حضرت معصومہ کي ہمراہي:بھائي سے ملنے کے شوق ميں پيش آنے والے اس سفر ميں حضرت معصومہ عليہا السلام کے پانچ بھائيوں،متعدد بھتيجوں،چند غلاموں اور چند کنيزوں نے بي بي کي ہمراہي اختيار کي-
حضرت معصومہ کے ساتھ سفر ميں ہمراہي کرنے والے بھائيوں کے نام يہ ہيں:فضل،جعفر،ہادي،قاسم اور زيد-
جب يہ کاروان ساوہ شہر پہنچا تو خليفہء وقت مأمون کے اشارے پر دشمنان اہل بيت (ع) نے حملہ کرديا، دشمن کي تعداد بہت زيادہ تھي اس حملے ميں حضرت معصومہ کے تمام بھائي اور کئي ديگر ہمراہي شہيد ہو گئے-
دشمنوں کے ظالمانہ حملے کي وجہ سے پيش آنے والي مظلومانہ شہادتيں ديکھ کر يا ايک تحقيق کے مطابق مسموم ہوجانے کي وجہ سے بي بي سخت بيمار ہوگئيں اور خراسان تک سفر کرنا ناممکن ہوگيا-
قم کے مۆمنين باخبر ہوئے تو استقبال کے ليے بڑھے اور انتہائي شان و شوکت سے جبکہ کرئمہ اہلبيت کے ناقہ کي لگام موسيٰ بن خرزج نے پکڑي ہوئي تھي؛ کاروان کو قم لے گئے-اسي بزرگوار اور عقيدتمندمۆمن کو ميزباني کا شرف نصيب ہُوا-
باب الحوائج امام کي بيٹي، رئيسِ مذہب امام کي پوتي، غريب الغرباء امام کي ہمشيرہ اور جواد الائمہ امام عليہم السلام کي پھوپھي حضرت معصومہ قم شہر ميں مقيم ہوئيں اور اس قيام کي مدت سترہ (17) دنوں سے بڑھ نہ سکي-
قم ميں موسيٰ بن خزرج کا گھر بي بي کي قيام گاہ بنا جو بعد ميں مدرسہ ستيہ کي صورت اختيار کرگيا-اس گھر ميں بي بي کا محرابِ عبادت اب بھي‘‘بيت النور’’کے عنوان سے معروف ہے،حضرت معصومہ عليہا السلام کا محراب عبادت آج بھي عام و خاص کي زيارت گاہ بنا ہوا ہے-
بھائي کو ملنے کي حسرت پورا نہ ہوسکي اور بہن اپنے بھائي کي ياد ميں اس پرديس کے عالم ميں دُنيا سے گزرگئيں-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
کريمۂ اہل بيت حضرت معصومۂ قم(ع)
وہ احاديث جو حضرت معصومہ(س) سے منقول ہيں