رسول خدا سے اميرالمؤمنين کي قربت کے پہلو 25
--- کيا آپ احمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي نصرت کے لئے مجھے صبر کي تلقين کرتے ہيں؟
اللہ کي قسم ميں نے جو کہا وہ جزع اور خوف و شکايت کي بنا پر نہيں تھا
بلکہ ميں نے چاہا کہ آپ ميري نصرت ديکھ ليں
اور آپ جان ليں کہ ميں بدستور آپ کا مطيع ہوں
ميں اللہ کي خاطر احمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي نصرت ميں اپني سعي کرتا رہوں گا
وہ جو ہدايت کے نبي ہيں جو بچپن ميں بھي محمود اور ممدوح تھے اور نوجواني ميں بھي محمود و ممدوح ہيں-
شعب ابي طالب (ع) ميں ناکہ بندي کے خاتمے کے بعد دو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے دو حامي يعني حضرت ابوطالب اور حضرت سيدہ خديجہ بنت خويلد سلام اللہ عليہما تھوڑے سي مدت بعد يکے بعد ديگرے دنيا سے رخصت اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي تنہائياں بانٹنے کي ذمہ داري علي (ع) نے سنبھالي اور تبليغ کے راستے ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي مدد کے حوالے سے ابوطالب عليہ السلام کي خالي جگہ بھي علي عليہ السلام نے پر کردي- اسي سال رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے مکہ چھوڑ کر طائف کا سفر کيا جہاں بعض مشرکين نے لوگوں کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے خلاف مشتعل کرديا اور شہر کے لڑکوں نے پتھر پھينکے اور علي (ع) رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے لئے ڈھال بن گئے اور پتھروں سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو بچاتے رہے اور آپ (ع) کے سر مبارک کو کئي چھوٹ آئے- (38)
--------
مآخذ
38ـ به نقل از: قطب الدين ابوالحسين بيهقي نيشابوري، ايمان ابيطالب عليه السلام ، ترجمه ابوالقاسم امامي، تهران، اسوه، 1379، ص 172.