• صارفین کی تعداد :
  • 1900
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

حديث غدير مدينہ منورہ ميں

 

شيعيا ن کا پهلا امام

حديث غدير اميرالمۆمنين (ع) کي نگاہ ميں 1

بقلم محمد محمديان تبريزى

يہ وہ زمانہ تھا جب آپ (ع) کو بيعت کے لئے مسجد لايا گيا- آپ (ع) نے اپني حقانيت بيان کرتے ہوئے مسلمانوں کي خلافت کو اپنا حق قرار ديا اور بيعت سے امتناع کيا- بشير بن سعد انصاري اٹھا اور کہنے لگا: اے ابوالحسن! اگر انصار ابوبکر کي بيعت سے قبل يہ کلام سنتے تو حتي ان ميں سے دو افراد بھي آپ کي بيعت ميں تردد کا اظہار نہ کرتے- اميرالمۆمنين (ع) نے جواب ديتے ہوئے فرمايا:

"يا هۆلاء أكنت أدع رسول الله مسجى لا أواريه و أخرج أنازع فى سلطانه؟ و الله ما خفت أحدا يسمو له و ينازعنا أهل البيت فيه و يستحل ما استحللتموه، و لا علمت أن رسول الله صلى الله عليه و آله ترك يوم غدير خم لأحد حجة و لا لقائل مقالا. فأنشد الله رجلا سمع النبى صلى الله عليه و اله يوم غدير خم يقول: «من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله» أن يشهد الان بما سمع". (1)

کيا مجھے رسول خدا (ص) کا جسم مبارک زمين پر رہنے دينا چاہئے تھا اور مجھے آپ (ص) کي خلافت اور جانشيني کے لئے نزاع ميں مصروف ہونا چاہئے تھا؟ خلافت کا مسئلہ اس قدر روشن و آشکار تھا کہ ميں سوچ بھي نہيں سکتا تھا کہ کوئي اس کے حصول کے لئے کوشش کرسکتا ہے اور اس سلسلے ميں اہل بيت رسول(ص) کے ساتھ جھگڑا کرسکتا ہے اور اپنے لئے حلال کرسکتا ہے وہ جو تم نے اپنے لئے حلال کرديا- کيا رسول اللہ (ص) نے غدير خم کے دن لوگوں پر اتمام حجت نہيں کيا؟ اور کيا کسي کے لئے پھر بھي کوئي عذر و بہانہ باقي تھا؟

--------------

منبں مجله كوثر شماره 2

مآخذ:

1ـ احتجاج طبرسى، ج 1، ص 184؛ الامامة و السياسة، ص 29 ـ 30؛ بحارالانوار، ج 28، ص .185-