امام ہادي عليہ السلام اور اعتقادي انحرافات کے خلاف جدوجہد
آپ (ع) کي عمر ابھي چھ سال پانچ مہينے تھي کہ ستمگر عباسي ملوکيت نے آپ کے والد کو ايام شباب ميں ہي شہيد کرديا اور آپ (ع) نے چھوٹي عمر ميں امامت کا عہدہ سنبھالا اور آپ کي مدت امامت 33 سال ہے- امام علي النقي الہادي عليہ السلام اپني عمر کے آخري دس برسوں کے دوران مسلسل متوکل عباسي کے ہاتھوں سامرا ميں نظر بند رہے. آپ کي شہادت بھي عباسي ملوکيت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائي ايام ميں ہوئي- آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا ميں اپنے گھر ميں ہي سپرد خاک کئے گئے-
امام دہم حضرت امام علي بن محمد النقي الہادي عليہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجري، مدينہ منورہ ميں پيدا ہوئے آپ (ع) کا نام "علي" رکھا گيا اور کنيت ابوالحسن، اور آپ (ع) کے مشہور ترين القاب "النقي اور الہادي" ہيں- اور آپ (ع) و ابوالحسن ثالث اور فقيہ العسکري بھي کہا جاتا ہے- جبکہ اميرالمؤمنين (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثاني کہلاتے ہيں- آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقي الجواد عليہ السلام اور آپ کي والدہ ماجدہ کا نام "سيدہ سمانہ" ہے- آپ (ع) کي عمر ابھي چھ سال پانچ مہينے تھي کہ ستمگر عباسي ملوکيت نے آپ کے والد کو ايام شباب ميں ہي شہيد کرديا اور آپ (ع) نے چھوٹي عمر ميں امامت کا عہدہ سنبھالا اور آپ کي مدت امامت 33 سال ہے- امام علي النقي الہادي عليہ السلام اپني عمر کے آخري دس برسوں کے دوران مسلسل متوکل عباسي کے ہاتھوں سامرا ميں نظر بند رہے. آپ کي شہادت بھي عباسي ملوکيت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائي ايام ميں ہوئي- آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا ميں اپنے گھر ميں ہي سپرد خاک کئے گئے- امام ہادي عليہ السلام اپني حيات طيبہ کے دوران کئي عباسي بادشاہوں کے معاصر رہے- جن کے نام يہ ہيں: معتصم عباسي، واثق عباسي، متوكل عباسي، منتصر عباسي، مستعين عباسي اور معتز عباسي- معاشرے کے ہادي و راہنما چونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کي ہدايت و راہنمائي کي ذمہ داري ائمہ طاہرين عليہم السلام پر عائد کي گئي ہے چنانچہ ائمہ عليہم السلام نے اپنے اپنے عصري حالات کے پيش نظر يہ ذمہ داري بطور احسن نبھا دي اور اصل و خالص محمدي اسلام کي ترويج ميں کوئي دقيقہ فروگذاشت نہيں کيا- ائمہ عليہم السلام کي ذمہ داري تھي کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھيں اور حقيقي اسلام کو واضح کريں چنانچہ امام علي النقي الہادي عليہ السلام کو بھي اپنے زمانے ميں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہيوں کا مقابلہ کيا- آپ (ع) کے زمانے ميں رائج انحرافات کي جڑيں گذشتہ ادوار ميں پيوست تھيں جن کي بنياديں ان لوگوں نے رکھي تھيں جو يا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال ميں مختار نہيں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتي حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئي چيز بھي بذات خود اچھي يا بري نہيں ہے اور ان کا عقيدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئي برا فعل بھي سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہيں کہا جاسکے گا- ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فريق برحق تھے يا دوسري طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار ديا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے- يا وہ لوگ جنہوں نے دين کو خرافات سے بھر ديا اور امام ہادي عليہ السلام کے دور ميں يہ سارے مسائل موجود تھے اور شيعيان اہل بيت (ع) کو بھي ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام عليہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کيا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کي اصلاح کا اہتمام کيا- جبر و تفويض علم عقائد ميں افراط و تفريط کے دو سروں پر دو عقائد "جبر و تفويض" کے نام سے مشہور ہيں جو حقيقت ميں باطل عقائد ہيں- شيخ صدوق نے عيون اخبار الرضا (جلد 1 صفحہ 114) ميں اپني سند سے امام علي بن موسي الرضا عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ آپ (ع) نے فرمايا: بريد بن عمير شامي کہتے ہيں کہ ميں "مرو" ميں امام رضا عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کيا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق عليہ السلام سے روايت ہوئي کہ آپ (ع) نے فرمايا: نہ جبر ہے اور نہ ہي تفويض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درميان ہے، اس کا مطلب کيا ہے؟امام رضا عليہ السلام نے فرمايا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام ديئے ہيں [يعني ہم نے جو کيا ہے وہ درحقيقت ہم نے نہيں کيا بلکہ خدا نے کئے ہيں اور ہم مجبور ہيں] اور اب ان ہي اعمال کے نتيجے ميں ہميں عذاب کا مستحق گردانے گا"، وہ جبر کا عقيدہ رکھتا ہے- اور جس نے گمان کيا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغيرہ کا اختيار اپنے اولياء اور حجتوں کے سپرد کيا ہے [جيسا کہ آج بھي بہت سوں کا عقيدہ ہے] وہ درحقيقت تفويض [خدا کے اختيارات کي سپردگي] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفويض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے- راوي کہتا ہے ميں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درميان کوئي تيسرا راستہ ہے؟ فرمايا: يابن رسول اللہ (ص(! "امرٌ بين الامرين" سے کيا مراد ہے؟ فرمايا: يہي کہ ايک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چيزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم ديا گيا ہے اور ان چيزوں کو ترک کرديتا ہے جن سے اس کو روکا گيا ہے- [يعني انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختيار ديا گيا ہے يہي وہ تيسرا اور درمياني راستہ ہے]- ميں نے عرض کيا: يہ جو بندہ اللہ تعالي کے احکامات کي تعميل کرتا ہے اور اس کي منہيات سے پرہيز کرتا ہے، اس ميں خدا کي مشيت اور اس کے ارادے کا کوئي عمل دخل ہے؟فرمايا: وہ جو طاعات اور عبادات ہيں ان کا ارادہ اللہ تعالي نے کيا ہے اور اس کي مشيت ان ميں کچھ يوں ہے کہ خدا ہي ان کا حکم دياتا ہے اور ان سے راضي اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کي انجام دہي ميں بندوں کي مدد کرتا ہے اور نافرمانيوں ميں اللہ کا ارادہ اور اس کي مشيت کچھ يوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہي فرماتا ہے اور ان کي انجام دہي پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کي انجام دہي ميں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کي مدد نہيں فرماتا-
امام رضا عليہ السلام نے اس حديث کے ذريعے ايک طرف سے جبر و تفويض کے رسمي معتقدين کي مذمت کي ہے تو دوسري طرف سے شيعيان اہل بيت (ع) ميں سے بھي ان لوگوں کي مذمت کي ہے جو اللہ تعالي کو بے اختيار کرنے کے لئے خدا کے تمام اختيارات اولياء اللہ عليہم السلام کو منتقل کرنے کي کوشش کرتے ہيں اور ائمہ عليہم السلام کے بارے ميں غلو اور زيادہ روي کا شکار ہوکر ايک تفويضيوں کي صف ميں کھڑے ہوجاتے ہيں؛ گوکہ يہ لوگ عام طور پر احکام الہي پر عمل نہ کرنے کا جواز ڈھونڈتے ہوئے اس طرح کے عقائد کا سہارا ليتے ہيں اور اس طرح کے اوصاف ائمہ طاہرين عليہم السلام سے منسوب کرتے ہيں جن کے ائمہ عليہم السلام اپنے لئے قائل نہيں ہيں اور ان کو جھلاتے ہيں- جبر و تفويض کا مسئلہ اور امام ہادي عليہ السلامشہر اہواز [جو آج ايران کے جنوبي صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادي عليہ السلام کے نام ايک خط ميں اپنے لئے درپيش مسائل کے سلسلے ميں سوالات پوچھے جن ميں جبر اور تفويض اور دين پر لوگوں کے درميان اختلافات کي خبر دي اور چارہ کار کي درخواست کي- امام ہادي عليہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصيلي جواب ديا جو ابن شعبہ حراني نے تحف العقول ميں نقل کيا ہے- امام (ع) نے اس خط کي ابتداء ميں مقدمے کي حيثيت سے مختلف موضوعات بيان کئے ہيں اور خط کے ضمن ميں ايک بنيادي مسئلہ بيان کيا ہے جو ثقلين (قرآن و اہل بيت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام عليہ السلام نے مفصل انداز سے بيان کيا ہے- اوراس کے بعد آيات الہي اور احاديث نبوي سے استناد کرکے حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام کي ولايت اور عظمت و مقام رفيع کا اثبات کيا ہے- شايد يہاں يہ سوال اٹھے کہ "اس تمہيد اور جبر و تفويض کي بحث کے درميان کيا تعلق ہے؟"؛ چنانچہ امام عليہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحرير فرماتے ہيں: ہم نے يہ مقدمہ اور يہ امور تمہيد ميں ان مسائل کے ثبوت اور دليل کے طور پر بيان کئے جو کہ جبر و تفويض کا مسئلہ اور ان دو کا درمياني امر ہے- شايد امام ہادي عليہ السلام نے يہ تمہيد رکھ کر جبر و تفويض کے مسئلے کو بنيادي طور حل کرنے کي کوشش فرمائي ہے کہ اگر لوگ ثقلين کا دامن تھاميں اور اس سلسلے ميں رسول اللہ الاعظم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کريں تو مسلمانان عالم کسي بھي صورت ميں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھي منحرف نہ ہونگے- امام ہادي عليہ السلام اس تمہيد کے بعد موضوع کي طرف آتے ہيں اور امام صادق عليہ السلام کے قول شريف"لا جَبْرَ وَلا تَفْويضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن"؛ کا حوالہ ديتے ہيں اور فرماتے ہيں: "اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هَلْ اَجْبَرَ اللّهُ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى؟ فَقالَ الصّادِقُ عليهالسلام هُوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ. فَقيلَ لَهُ: فَهَلْ فَوَّضَ اِلَيْهِمْ؟ فَقالَ عليهالسلام : هُوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهُمْ مِنْ ذلِكَ" امام صادق عليہ السلام سے پوچھا گيا کہ کيا خدا نے انسان کو نافرماني اور معصيت پر مجبور کيا ہے؟امام عليہ السلام نے جواب ديا: خداوند اس سے کہيں زيادہ عادل ہے کہ ايسا عمل انجام دے- پوچھا گيا: کيا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختيار اسي کے سپرد کيا ہے؟فرمايا: خداوند اس سے کہيں زيادہ قوي، عزيز اور مسلط ہے ہے کہ ايسا عمل انجام دے- امام ہادي عليہ السلام مزيد فرماتے ہيں: مروي ہے کہ امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: النّاسُ فِى القَدَرِ عَلى ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهَنَ اللّهَ فى سُلْطانِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّهَ جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وَكَلَّفَهُمْ ما لا يُطيقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّهَ فى حُكْمِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّهَ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطيقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطيقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّهَ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّهَ؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ؛ لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تين گروہوں ميں بٹے ہوئے ہيں (فرقۂ قَدَريہ کے تين گروہ ہيں):* کچھ کا خيال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفويض کئے گئے ہيں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اپنے تسلط ميں سست گردانا ہے، چنانچہ يہ گروہ ہلاکت اور نابودي سے دوچارہوگيا ہے-* کچھ لوگ وہ ہيں جن کا عقيدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کو گناہوں اور نافرماني پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ايسے افعال اور امور واجب قرار ديتا ہے جن کي وہ طاقت نہيں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام ميں ظالم اور ستمگر قرار ديا ہے چنانچہ اس عقيدے کے پيروکار بھي ہلاک ہونے والوں ميں سے ہيں- اور* تيسرا گروہ وہ ہے جس کا عقيدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کي طاقت و اہليت کي بنياد پر انہيں حکم ديتا ہے اور ان کي طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئي چيز واجب نہيں کرتا- يہ وہ لوگ ہيں جو اگر نيک کام انجام ديں تو اللہ کا شکر انجام ديتے ہيں اور اگر برا عمل انجام ديں تو مغفرت طلب کرتے ہيں؛ يہي وہ لوگ ہيں جو حقيقي اسلام کو پاچکے ہيں- اس کے بعد امام ہادي عليہ السلام مزيد وضاحت کے ساتھ جبر و تفويض کے مسئلے کو بيان کرتے ہيں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہيں- فرماتے ہيں: "َاَمّا الْجَبْرُ الَّذى يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّهَ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّهَ فى حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ «وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» وَقَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَاَنَّ اللّهَ لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبيد"-...؛ ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطي پر ہے ـ پس يہ اس شخص کا قول و عقيدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصيت پر مجبور کيا ہے ليکن اسي حال ميں ان کو ان ہي گناہوں اور معصيتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقيدہ يہ ہوگا اس نے اللہ تعالي کو اس کے حکم و حکومت ميں ظلم کي نسبت دي ہے اور اس کو جھٹلايا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کرديا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تيرا پروردگار کسي پر بھي ظلم نہيں کرتا"، نيز فرماتا ہے: "يہ ( عذاب آخرت ) اُسکي بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھيجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہيں ہے"- امام عليہ السلام تفويض کے بارے ميں فرماتے ہيں: "وَاَمَّا التَّفْويضُ الَّذى اَبْطَلَهُ الصّادِقُ عليهالسلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَهُ فَهُوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ فَوَّضَ إِلَى الْعِبادِ اخْتِيارَ أَمْرِهِ وَنَهْيِهِ وَأَهْمَلَهُمْ"؛ ترجمہ: اور جہاں تک تفويض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق عليہ السلام نے باطل کرديا ہے اور اس کا معتقد غلطي پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہي [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کيا ہے اور اس عقيدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ ديا ہے- فرماتے ہيں: "فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّهَ تَعالى فَوَّضَ اَمْرَهُ وَنَهْيَهُ إلى عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّهِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَهُ وَوَعيدَهُ، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّهَ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشيئَتِهِ، فَاِنْ شاءَ الْكفْرَ أَوِ الاْيمانَ كانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ..."؛ ترجمہ: پس جس نے گمان کيا کہ خدا نے امر و نہي [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کيا ہے اور ان لوگوں نے گويا خدا کو عاجز اور بے بس قرار ديا ہے اور انھوں نے [اپنے تئيں اتنا اختيار ديا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبوليت کو اللہ پر واجب قرار ديا ہے! اور اللہ کے امر و نہي اور وعدہ و وعيد کو جھٹلاکر باطل قرار ديا ہے؛ کيونکہ اس کہ وہم يہ ہے کہ خداوند متعال نے يہ تمام امور ان ہي کے سپرد کئے گئے ہيں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہيں وہ ہر کام اپني مرضي سے کرتا ہے- پس خواہ وہ کفر کو اختيار کرے خواہ ايمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئي رد ہے اور نہ ہي اس کے لئے کوئي رکاوٹ ہے-امام ہادي عليہ السلام يہ دونوں افراطي اور تفريطي نظريات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحيح نظريہ پيش کرتے ہيں جو "امرٌ بين الأمرين" سے عبارت ہے؛ فرماتے ہيں: "لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّهَ جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهِمْ بِها، فَاَمَرَهُمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِهِ وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهُمْ، وَنَهاهُمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاهُ وَعاقَبَهُ عَلَيْها"؛ ترجمہ: ليکن ہمارا عقيدہ يہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپني قوت سے خلق فرمايا اور ان کو اپني پرستش اور بندگي کي اہليت عطا فرمائي اور جن امور کے بارے ميں چاہا انہيں حکم ديا يا روک ديا- پس اس نے اپنے اوامر کي پيروي کو اپنے بندوں سے قبول فرمايا اور اس [بندوں کي طاعت و عبادت اور فرمانبرداري] پر راضي اور خوشنود ہوا اور ان کو اپني نافرماني سے روک ليا اور جو بھي اس کي نافرماني کا مرتکب ہوا اس کي ملامت کي اور نافرماني کے بموجب سزا دي- امام علي النقي الہادي عليہ السلام اور غلات (نصيريوں) کا مسئلہہر دين و مذہب اور ہر فرقے اور قوم ميں ايسے افراد پائے جاسکتے ہيں جو بعض ديني تعليمات يا اصولوں ميں مبالغہ آرائي سے کام ليں يا بعض ديني شخصيات کے سلسلے ميں غلو کا شکار ہوتے ہيں اور حد سے تجاوز کرتے ہيں- برادر مکاتب ميں ميں صحابيوں کي عمومي تنزيہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر فوقيت دينا يا صحابہ کي شخصيت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کي مرضي سے تأويل و تفسير کرتے ہيں اور اگر صحاح سے رجوع کيا جائے تو ايسي حديثوں کي بھي کوئي کمي نہيں ہے جو ان ہي مقاصد کے لئے وضع کي گئي ہيں-ليکن يہ بيماري دوسرے اديان و مکاتب تک محدود نہيں ہے بلکہ پيروان اہل بيت (ع) يا شيعہ کہلانے والوں ميں بہت سے افراد اس بيماري ميں مبتلا ہوئے ہيں- يہ سلسلہ حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام کے زمانے سے جاري رہا اور ہميشہ ايک گروہ يا چند افراد ايسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بيت عليہم السلام کي نسبت غلو کا شکار تھے اور غاليانہ انحراف کا شکار تھے- غاليوں کے يہ گروہ حضرات معصومين عليہم السلام کي تعليمات کو يکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے ميں غلو آميز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومين عليہم السلام کو معاذاللہ الوہيت تک کا درجہ ديتے ہيں چنانچہ غلو کي بيماري امام ہادي عليہ السلام کے زمانے ميں نئي نہيں تھي بلکہ غلو بھي دوسرے انحرافي عقائد کي مانند ايک تاريخي پس منظر کا حامل تھا- غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور ميں نظر آرہے ہيں- حتي کہ امام سجاد عليہ السلام کے زمانے ميں بھي يہ لوگ حاضر تھے اور شيعيان اہل بيت (ع) کے لئے اعتقادي مسائل پيدا کررہے تھے- نہ غالي ہم سے ہيں اور نہ ہمارا غاليوں سے کوئي تعلق ہےامام علي بن الحسين زين العابدين عليہ السلام غاليوں سے يوں برائت ظاہر کرتے ہيں: "إنَّ قَوْما مِنْ شيعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّى يَقُولُوا فينا ما قالَتِ الْيَهُودُ فى عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصارى فى عيسَى ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا هُمْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهُمْ"- ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسي طرح محبت اور دوستي کا اظہار کريں گے جس طرح کہ يہودي عزيز (ع) کے بارے ميں اور نصراني عيسي (ع) کے بارے ميں اظہار عقيدت کرتے ہيں نہ تو يہ لوگ (غالي) ہم سے ہيں اور نہ ہمارا ان سے کوئي تعلق ہے- امام سجاد عليہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ عليہم السلام اپنے عصري تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فيصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہيں تشيع کو بدنام نہيں کرنے ديتے تھے- امام سجاد عليہ السلام سے روايت ہے کہ آپ نے فرمايا: "َحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّهِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّى بَغَّضْتُمُونا إلَى النّاسِ"- ترجمہ: ہم سے اسي طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہيں حکم ديا ہے؛ پس خدا کي قسم! جو کچھ تم [غالي اور نصيري] ہمارے بارے ميں کہتے ہو اس کے ذريعے لوگوں کو ہماري دشمني پر آمادہ کرتے ہو-يہاں اس بات کي يادآوري کرانا ضروري ہے کہ غلو آميز تفکر مختلف صورتوں ميں نمودار ہوسکتا ہے- مرحوم علامہ محمد باقر مجلسي بحارالانوار ميں لکھتے ہيں: "نبي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرين عليہم السلام کے بارے ميں غلو کا معيار يہ ہے کہ کوئي شخص* نبي (ص) يا کسي امام يا تمام ائمہ (ع) کي الوہيت [اور ربوبيت] کا قائل ہوجائے؛* نبي (ص) يا کسي امام يا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شريک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کي عبادت کي جائے يا روزي رساني ميں انہيں اللہ کا شريک قرا دے يا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) يا ائمہ کي ذات ميں حلول کر گيا ہے- يا وہ شخص* اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کي وحي يا الہام کے بغير ہي علم غيب کے حامل ہيں؛* يا دعوي کيا جائے کہ ائمہ انبياء ہي ہيں؟ * يا کہا جائے کہ بعض ائمہ کي روح بعض دوسرے ائمہ ميں حلول کرچکي ہے- * يا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ عليہم السلام کي معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کي عبادت اور بندگي سے بے نياز کرديتي ہے اور اگر کوئي ان کي معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئي عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہي محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہيز کرنے کي کوئي ضرورت نہيں ہے- جيسا کہ آپ نے ديکھا ان امور ميں سے کسي ايک کا قائل ہونا غلو کے زمرے ميں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالي بھي کہتے ہيں اور بعض لوگ انہيں نصيري بھي کہتے ہيں- علامہ مجلسي کہتے ہيں کہ جو غلو کي ان قسموں ميں کسي ايک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دين سے خارج ہوچکا ہے- جيسا کہ عقلي دلائل، آيات امو مذکورہ روايات وغيرہ بھي اس بات کا ثبوت ہيں- امام علي النقي الہادي عليہ السلام کے زمانے ميں غالي سرگرم تھے اور اس زمانے ميں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کي قيادت کررہے تھے چنانچہ امام عليہ السلام نے اس کے سامنے خاموشي روا نہ رکھي اور مضبوط اور واضح و فيصلہ کن انداز سے ان کي مخالفت کي اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کيا- اس منحرف غالي گروہ کے سرغنے: على بن حسكہ قمى، قاسم يقطينى، حسن بن محمد بن باباى قمى، محمد بن نُصير فهرى اور فارِس بن حاكم تھے- احمد بن محمد بن عيسى اور ابراہيم بن شيبہ، امام ہادي عليہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہيں اور اس زمانے ميں غلات کے عقائد اور رويوں و تفکرات کي طرف اشارہ کرتے ہيں اور ان کے بعض عقائد بيان کرتے ہيں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غاليوں على بن حسكہ اور قاسم يقطينى کي شکايت کرتے ہيں اور امام عليہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ ميں جواب ديتے ہيں کہ: "لَيْسَ هذا دينُنا فَاعْتَزِلْهُ"؛ ترجمہ: يہ ہمارا دين نہيں ہے چنانچہ اس سے دوري اختيار کرو- اور ايک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق عليہم السلام کي مانند غاليوں پر لعنت بھيجي:محمد بن عيسي کہتے ہيں کہ امام ہادي عليہ السلام نے ايک مراسلے کے ضمن ميں ميرے لئے لکھا: "لَعَنَ اللّهُ الْقاسِمَ الْيَقْطينى وَلَعَنَ اللّه عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائى لِلْقاسِمِ فَيُوحى اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا؛ ترجمہ: اللہ تعالي قاسم يقطيني اور علي بن حسکمہ قمي پر لعنت کرے- ايک شيطان قاسم اليقطيني کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہري صورت ميں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل ميں ڈال ديتا ہے اور اس کو دھوکا ديتا ہے- نصر بن صبّاح کہتے ہيں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمي، محمد بن نصير نميرى اور فارس بن حاتم قزوينى پر امام حسن عسکري عليہ السلام نے لعنت بھيجي-
غالي کو قتل کنر-ہم تک پہنچنے والي روايات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادي عليہ السلام کي جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہيں بڑھ کر تھي اور آپ (ع) نے بعض غاليوں کے قتل کا حکم جاري فرمايا ہے- محمد بن عيسي کہتے ہيں: "إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِى عليهالسلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوينىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ؛ ترجمہ: امام ہادي عليہ السلام نے فارس بن حاتم قزويني کے قتل کا حکم ديا اور اس شخص کے لئے جنت کي ضمانت دي جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنيد نامي شخص نے اس کو ہلاک کرديا-