شيعي ثقافت کي اہميت اور آزادي
امام جعفر صادق عليہ السلام شيعہ مکتب کيلنے جس ثقافت کو سامنے لانے وہ اس زمانے کي دوسري مذہبي ثقافتوں کي نسبت اس لحاظ سے ممتاز حيثيت کي حامل تھي کہ اس ميں بحث کي آزادي تھي اور اسي وجہ سے اس ثقافت ميں توسيع ہوني اور اسے فروغ حاصل ہوا -
گذشتہ صفحات ميں ہم نے ذکر کيا کہ کيتھولک مذہب کي ثقافت تقريبا ايک ہزار سال تک جمود کا شکار ہي آج کے آرتھوڈکس مذہب کي ثقافت اور دوسري صدي عيسوي ميں انطاکيہ ميں اس مذہب کي ثقافت ميں کوئي فرق نہيں -
ليکن شيعہ مکتب کو جعفر صادق نے ايسے خطوط پر استوار کيا کہ ابھي دوسري صدي ہجري اختتام کو نہيں پہنچي تھي کہ اس ميں توسيع ہو گئي تھي -
شيعي ثقافت کا دامن نہ صرف يہ کہ خود وسيع ہوتا گيا بلکہ تمام اسلامي فرقوں کيلئے مباحثات ميں کسي حد تک آزادي کے قائل ہونے کيلئے نمونہ ثابت ہوئي -
بعض لوگوں نے تصور کيا تھا کہ مذہب کے بارے ميں بحث کي آزادي ‘ اسکندريہ کے علمي مکتب ميں شروع ہوئي ‘ جبکہ ايسا نہيں ہے - اسکندريہ کے علمي مکتب ميں فلسفہ کے بعد ‘ علم نجوم و فزکس و کيمياء و طب و فارميسي اور کسي حد تک ميکانکس کے بارے ميں توجہ يا رغبت کا اظہار کيا جاتا تھا ليکن مذہب کے بارے ميں دلچسپي کا اظہار نہيں کيا جاتا تھا -
اسکندريہ کے علمي مکتب کے سائنس دانوں کا ايک گروہ يہودي يا عيسائي تھا ليکن انہوں نے مذہبي مسائل کو کبھي علمي مباحثات ميں داخل نہيں کيا ْونکہ اسکندريہ کا علمي مکتب ايک لا مذہب مکتب شمار ہوتا تھا - لہذا يہ علمي مکتب مذہبي بحثوں ميں نہيں پڑنا چاہتا تھا -
ہميں معلوم ہے کہ اسکندريہ کے علمي مکتب کا آغاز اسکندريہ کي لائبريري سے ہوا اور ہميں يہ بھي پتہ ہے کہ اسکندريہ کا کتابخانہ بطليموس اول يعني مصر کے بادشاہ نے قائم کيا يہ بادشاہ 258 قبل مسيح ميں فوت ہوا ‘ يہاں اس بات کا تفصيلات ذکر ضروري نہيں ہے کہ سلسلہ بطاليہ کے بادشاہوں نے 150 مصر پر حکومت کي ان کا پہلا بادشاہ بطليموس اول تھا جو يوناني الاصل تھا اور يہ بادشاہ يونان کے خداğ کي پرستش کرتے تھے -
ليکن مصر کے بادشاہ ہونے کے باوجود ان کا مذہبي عقيدہ اسکندريہ کے علمي مکتب کي بحثوں کا موضوع نہ بنا اور وہ پہلا دانشور جو اسکندريہ کے علمي مکتب سے باہر آيا اس کا نام شکاک تھا جو پيرون کے نام سے مشہور ہوا -
پيرون مستقل طور پر اسکندريہ کا باسي نہ تھا ليکن اس علمي مکتب کے تربيت يافتہ لوگوں ميں سے تھا اور اس مکتب نے اسے متاثر کيا اور شکي المزاج بنا ديا اس نے کہہ ديا کہ سائياک وجود نيا ميں نہيں ہے جسطرح محال ہے کہ ايک نظريہ پيش کيا جائے اور اس کو کسي دوسري نظريہ کے ذريعے مسترد نہ کيا جاسکے -
کہا جاتا ہے کہ اسکندريہ کے مکتب نے پيرون کو جس نے 370 قبل مسيح نوے سال کي عمر ميں اس جہاں فاني کو الوداع کہا ‘ شکي المزاج نہيں بنايا بلکہ شک و شبہ کا مادہ پيرون کے اندر موجود تھا ليکن اسکندريہ کے اس مکتب ميں علمي بحث کي آزادي کي وجہ سے اس کے شک و شبہ کو تقويت ملي يہاں تک کہ پيرون مکمل طور پر حقيقت کے وجود کا منکر ہو گيا اور اگر مصر کے سلسلہ بطاليہ کے بادشاہون کا دين اسکندريہ کے مکتب ميں داخل ہوتا تو پيرون اتني ديدہ دليري سے ہر حقيقت پر شک کا اظہار نہ کر سکتا چونکہ بطاليہ بادشاہوں کے مذہب ميں يوناني خداğ کا وجود ايک ايسے حقيقت تھا جس ميں شک و شبے کي گنجائش نہ تھي -
يہاں پر پيرون کے فلسفے کے متعلق بحث نہيں کرتے کيونکہ اسطرح ہم اپنے اصلي مقصد سے ہٹ جائيں گے ہمارے کہنے کا مقصد يہ ہے کہ اسکندريہ کے علمي مکتب ميں مذہبي بحث ہوتي تھي - کيونکہ وہ مکتب علمي بحثوں کے لحاظ سے لا مذہب تھا -
بحث کي آزادي اس وقت شروع ہوئي جب جعفر صادق نے شيعي ثقافت کي مذہبي مسائل ميں بنياد رکھي اس ثقافت ميں مذہبي بحثيں ‘ عام علمي مباحث ميں داخل ہوئيں اور صديوں بعد نوبت يہاں تک پہنچي کہ شيعہ مذہب کے دانشور اس مذہب کو علمي قوانين کے ذريعے ثابت کرنے لگے -
شيعہ مکتب کي ابتداء کا اثر دوسرے مذاہب پر بھي پڑا اور وہ بھي اپنے مذاہب کو علمي دلائل کے ذريعے ثابت کرنے لگے عيسي اور موسي کے مذاب کي طرح دين اسلام بھي جب آيا تو اس نے کسي دوسري چيز پر تکيہ کئے بغير علمي دلائل کے ذريعے اپني حقانيت کو ثابت کرنے کا آغاز کيا -
آج جبکہ دين موسي آئے ہوئے تيس صدياں دين عيسي کو بيس صدياں اور اسي طرح اسلام کو چودہ سو سال ہو چکے ہيں اہل بصيرت گروہ کا عقيدہ ہے کہ دين کا علمي استدال سے کوئي تعلق نہيں اس کا تعلق قلب و نظر سے ہے نہ کہ علم سے -
تمام آرتھوڈ کسي مذہبي پيشوا اس نظريئے کے حامي ہيں اور کيتھولکي مذہبي پيشواؤ ں کي اکثريت دين کو علم سے جدا کرنے کي قائل ہے - البتہ اس مفہوم ميں نہيں کہ دين ايک نظريہ نہيں جسے علم کے ذريعے ثابت نہيں کيا جا سکتا بلکہ اس مفہوم ميں کہ جب کبھي احکام دين عام استدال سے ثابت نہ ہوں تو يہ دين کے ناقص ونے کي دليل نہيں کيونکہ عيسائي مذہب کا سر چشمہ عشق ہے نہ کہ علم ‘ اور دوسرے الفاظ ميں اس مذہب کا سر چشمہ عشق ہے نہ کہ عقل ‘ اسي وجہ سے عيسائي مذہب کے مدارس جن کو آج انگريز زبان ميں سيمزي اور فرنسيسي زبان ميں سيمينر کہا جاتا ہے ان ميں علوم نہيں پڑھائے جاتے تھے کيونکہ ان کا عقيدہ تھا کہ دين اک سر چشمہ علم نہيں ہے -
&قرون وسطي ميں کلاسيکل مذہبي دروس کے علاوہ ‘ عيسائي فقہ کو بھيمذکورہ مدارس کے دروس ميں قانون کے نام پر داخل کيا ‘ اور ابھي تک عيسائي مذہب کے مدارس ميں خصوصا کيتھولک مذہب کے مدارس ميں قانون پڑھايا جاتا ہے -
لہذا عيسائي مذہب کے مدارس ميں جو اور علم پڑھايا جاتا ہے وہ علم قانون يا قانون مذہبي ہے - قرون وسطي کے دوران فزکس و کيمسٹري و نجوم و حساب و ہندسہ و طب و ميکانکس عيسائي مذہب کے مدارس ميں نہيں پڑھائے جاتے تھے اور فلسفہ بھي نہيں پڑھايا جاتا تھا - کيونکہ فلسفہ پڑھانے کو عيسائي مذہب کے مدارس ميں سود مند نہيں سمجھا جاتا تھا -
شيعہ ثقافت جسے امام جعفر صادق نے رائج کيا پہلا ايسا مکتب ہے جس ميں مذکورہ بالا علوم پڑھائے جاتے تھے جعفر صادق خود ان علوم کو پڑھاتے اور فلسفہ کي تدريس سے بھي پہلو تہي نہيں کي جاتي تھي -
جس فلسفہ کو جعفر صادق (ع) تدريس کرتے تھے وہ اس کلاسيکل فلسفہ کي اطلاعات پر مشتمل تا جو اس وقت تک مدينہ تک پہنچ چکي تھيں -
جس زمانے ميں جعفر صادق (ع) فلسفہ پڑھاتے تھے اس زمانے تک يوناني حکماء کي کتابوں کا سورياني زبان سے عبي زبان ميں با محاورہ ترجمہ نہيں ہوا تھا -
باور کيا جاتا ہے کہ يوناني حکماء کے فلسفيانہ نظريات بھي مصر کے راستے بعض قبطي دانشورں کے ذريعے جو ابھي تک اسکندريہ کے آزاد بحث والے مکتب کے پيرو تھے ‘ مدينہ تک اور جعفر صادق (ع) تک پہنچے اور اسي لئے ہم کہتے ہيں کہ وہ (بظاہر ) مکتب اسکندريہ کے آزاد بحث کرنيوالے مکتب کے پيرو کار تھے اسي مذہب کے پيروکار تھے اور اسي مذب کي پيروي کرتے ہوئے فلسفہ کو مضر خيال کرتے تھے - بہر کيف ‘ قبطي علماء کي تعداد جو فلسفے سے دلچسپي رکھتي تھي ‘ کچھ زيادہ نہ تھي اور ان کي توصيف کے ساتھ ہم انداز کہہ سکتے ہيں کہ فلسفہ ان کي وساطت سے مدينے پہنچا ‘ اسلام ميں جعفر صادق (ع) سے پہلے کسے استاد نے بھي فلسفے کو اپنے دروس ميں (باقاعدہ ) داخل نہيں کيا جبکہ ہم ديکھتے ہيں کہ بعد ميں فلسفہ شيعہ ميں اور دوسري اسلامي فرقوں کے مدارس کے دورس کے مواد ميں شامل ہو گيا - اور اس کي ابتداء کا سہرا امام جعفر صادق کے سر ہے -
جعفر صادق کے دورس کے فلسفيانہ مباحث‘ سقراط افلاطون اور ارسطو کے فلسفيانہ نظريات تھے اور چونکہ جعفر صادق فلسفے کي تدريس کے باني تھے ‘ لہذا آپ کے بعد آنيوالے ادوار ميں شيعہ مدارس ميں فلسفے کي تدريس کا رواج پڑ گيا ‘ سارے اسلامي فرقوں ميں فلسفہ پڑھايا جاتا تھا ليکن اتنا عام نہيں تھا اور علاوہ دوسري اسلامي فرقوں ميں فلسفہ پر توجہ نہيں دي جاتي اور خيال کيا جاتا ہے کہ وہ مذہب پر اثر انداز نہيں ہوتا - گذشتہ صفحات ميں سے ايک ميں ہم نے اشارہ کيا ہے کہ جعفر صادق عرفان بھي پڑھاتے تھے آپ کا عرفان ‘مشرق کے عرفان اور اسکندريہ کے مکتب کے عرفان سے متعلق تھا ليکن آپ ان دونوں مکاتب سے ايک جديد عرفاني مکتب وجود ميں لائے جسے آپ کے پيروکار جعفري عرفان کا نام ديتے ہيں جعفر ي عرفان ميں اور مشرقي اور مکتب اسکندريہ کے عرفان ميں يہ فرق ہے کہ جعفري عرفان ميں دنياوي امور پر بھي ‘ اخلاقي امور پر اور تزکيہ نفس کي مانند توجہ دي جاتي ہے -
جعفر صادق نے اپنے عرفان ميں صرف اخروري امور پر اکتفا نہيں کيا بلکہ دنياوي امور اخلاق و تزکيہ نفس کا بھي سہارا ليا ہے گوايا انہوں نے يہ سمجھانے کي کوشش کي ہے کہ جو کوئي دنيوي امور اخلاقي و تزکيہ نفس کے ميدان جہاد ميں جدوجہد کرے گا اسے آخرت ميں اسکي اچھي جزا ملے گيا ور اس دنيا کي زندگي ايک کھيتي کے مانند ہے کہ جو کچھ يہاں بوئيں گے دوسري دنياميں وہي کاٹيں گے اور جنہوں نے اس دنيا ميں اپنے دنيوي و اخلاقي فرائض اادا کئے انہيں دوسري دنيا ميں اپنے متعلق خوف و خظر نہيں ہونا چاہيے اور انہيں اس بارے ميں فکر نہيں کرنا چاہيے کہ انہوں نے آخرت کيلئے توشہ مہيا نہيں کيا - جعفر عرفان ميں دوسرے مکاتب فکر کي مانند مبالغہ آرائي نہيں ہے اور خالق و مخلوق کي وحدت بھي نہيں پائي جاتي- آپ کے عرفان ميں اگر انسان نيکو کار ہو گا تو خدا کے قريب ہو جائے گا ليکن اس سے ملحق نہيں ہو گا کيونکہ مخلوق خالق سے ملحق نہيں ہو سکتي اس بات کا امکان ہے کہ مخلوق اور خالق کے درميان فاصلہ کم ہو جائے ليکن يہ فاصلہ مکمل طور پر ختم نہيں ہو سکتا -
جعفر صادق کے حلہ درس ميں آزادانہ اظہار خيال کيا جاتا تھا جس ميں ہر شاگرد استاد پر اس حد تک تنقيد کر سکتا تھا کہ استاد کے نظريئے کو مسترد بھي کر سکتا تھا -
جعفرصادق نے اپنا نظريہ شاگردوں پر ٹھونسا نہيں بلکہ انہيں آزادي تھي کہ استاد کے نظريئے کو قبول کريں يا مسترد کر ديں -
جعفر صادق کے درس کا اثر تھا کہ شاگرد آپ کے نظريئے کو قبول کر ليتے تھے - جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس ميں حاضر ہوتے تھے انہيں علم تھا کہ مادي لحاظ سے ان کا درس سود مند نہيں ‘ بلکہ شہر مدينہ کے باہر ايک عرصے تک اگر کوئي شخص اپنے آپ کو جعفر صادق کے مريدوں ميں سے ظاہر کرتا تو ممکن تھا کہ اس کي جان خطرے ميں پڑ جائے کيونکہ اموي حکام جعفر صادق کے مردوں کو دشمن نگاہوں سے ديکھتے تھے -اگرچہ انہيں معلوم تھا کہ ان ميں اس دور ميں دشمني کرنيکي جرات نہيں ليکن پھر بھي ان کا خيا ل تھا کہ يہ لوگ پہلي فرصت ميں اپني دشمني کو ظاہر کر ديں -
جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس ميں شريک ہوتے تھے انہيں بخوبي علم تھا کہ وہ کسي مقام پر فائز نہيں ہو سکتے کيونکہ جعفر صادق اموي حکام و خليفہ کي مانند دينوي مصب پر براجمان نہيں تھے کہ اپنے مريدوں اور شاگردوں کو کوئي رتبہ ديتے - وہ لوگ جانتے تھے کہ جب جعفر صادق کے اپنے پاس مال و متاع نہيں ہے تو وہ دوسري کون کيسے نوازيں گے -
جو چيز امام جعفر صادق کے شاگردوں کو انکے درس کي طرف کھينچ لاتي تھي وہ آ پ کي قوت کلام اور آپ گفتگو پر ايقان تھا اور چونکہ امام جعفرصادق جو کچھ فرماتے تھے اس پر ان کا ايمان ہوتا تھا ‘ اس لئے آپکے کلمات شاگردوں پر اثر کرتے تھے -
جعفر صاد ق جو کچھ کہتي تھے اس پر ان کا ايمان تھا لہذا اپني زندگي ميں سلوہويں صدي عيسوي کے بعد کي صورتحال سے جيسے ايتھوپيا سے موسوم کياجاتا ہے ‘ ميں دخل نہيں ديا -
آپ نے اپنے شاگردوں کو ہر گز ايک ايسي آئيڈيل حکومت کے قيام کي جانب راغب نہيں کيا جسے عملي جامہ نہيں پہنايا جا سکتا تھاجس زمانے ميں آپ کے والد گرامي درس ديتے تھے ‘ وہ شاگرد جومحمدد باقر کے حلقہ درس ميں حاضر ہوتے تھے وہ دينوي مصب تک پہنچے اور قاضي بننے کے اميدوار ہوتے تھے -
چونکہ وليد بن عبالملک اموي خليفہ نے اس بات سے اتفاق کي اتھا جو لوگ آج کي اصطلاح ميں فارغ التحصيل ہوں گے - ان ميں سے چند لوگوں کو جج منتخب کيا جائے گا -
ليکن جو لوگ جعفر صادق کے حلقہ درس ميں شريک ہوتے تھے وہ اس بات کے اميدوار نہيں ہوتے تھے اور صرف معررفت کے حصول کيلئے علم حاصل کرتے تھے -
اعراب کے مصر ميں داخل ہونے اور مکتب اسکندريہ کے خاتمے ميں سے پہلے مکتب اسکندريہ اور مکتب امام جعفر صادق دونوں ميں اظہار خيال کي آزادي ہوتي تھي ليکن ان دونوں مکاتب ميں يہ فرق تھا کہ مکتب اسکندريہ ميں مذہبي بحث درميان ميں نہيں لائي جا تي تھي جبکہ جعفر صادق کے درس ميں مذہب پر بحث ہوتي تھيا ور شاگردوں کو اس بات کي اجازت تھي کہ وہ استاد کے مذہبي نظريات پر بھي تنقيد کريں -
اسي آزادي بحث کا اثر تھا کہ شيعي ثقافت طاقت ور اور وسيع ہوتي گئي اس لئے کہ اس ميں زبردستي نہيں تھي اور جو شخص اسے قبول کرتا وہ صدق دل سے قبول کرتا تھا ‘ چونکہ اس ثقافت ميں جبرو کراہ نہيں تھا اسلئے جو کوئي اسے قبول کرتا وہ مادي مفاد يا شان و شوکت کيلئے نہيں بلکہ دل کي گہرائيوں سے مذہب شيعہ کا گرويدہ ہونے کے باعث اسے قبول کرتا تھا -
مشرقي تاريخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہيں کہ صفويہ دور سے پہلے مشرق ميں کوئي شيعہ سلطنت نہيں تھي اور اگرچہ آل بويہ سلاطن نے شيعہ مذہب کو پھيلانے کيلئے اقدامات کئے ليکن انہوں نے جبر و اکراہ سے کام نہيں ليا بلکہ شيعي ثقافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس ميں کربلا کے اکسٹھ ہجري کے واقعات کا ذکر بھي ہوتا تھا ‘ اس مذہب کي تبليغ و اشاعت کرتے تھے -
آل بويہ کے شيعہ سلاطين کي کوئي مستقل حکومت ديکھنے ميں نہيں آئي البتہ اس کے بعد صفويوں نے مضبوط حکومت کي بنياد ڈالي -
بہر کيف شيعہ مذہب ‘ مشرقي ممالک ميں ان ادوار کي حکومتوں کي مخالفت کے باوجود ترقي کرتا رہا اگرچہ اس کي ترقي اتني تيز نہيں تھي پھر بھي چونکہ ايک مضبوط اور وسيع ثقافت کا حامل تھا لہذا سينکڑوں سال تک سلاطين اور حکام کي دشمني کے مقابلے ميں پائيدار رہا حالانکہ حکومت و طاقت نہ ہونے کے علاوہ اس کے پاس مادي وسائل کي بھي کمي تھي - بعض اقوام ايسي گزري ہيں جو صديوں تک بغير حکومت کے زندہ رہيں حالانکہ ان کے مساتھ مسلسل دشمني کا برتاؤ کيا گيا ہے اس کي وجہ يہ تھي کہ وہ قومين مادي وسال رکھتي تھيں مثلا قرون وسطي ميں کہ يہودي کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ حکام حتي کہ بعض سلطاين بھي ان سے قرض ليتے تھے - اور چونکہ مادي لحاظ سے وہ ان کے محتاج ہو تے تھے لہذا انہيں آزاد نہيں پہنچاتے تھے اور قرون وسطي ميں يورپ کے بعض شہريوں کے حملوں ميں يہودي الگ زندگي گزارتے تھے -
جعفر صادق کے ہزار سال بعد جب خطہ يورپ نے قون وسطي کي تاريکيوں سے نجات پائي اور اس خطے کے لوگوں کے نظريات ميں جلائي آئي تو پھر بھي لاطيني يورپ کے ممالک مثلا فرانس ‘ اٹلي و سپين و پرتکال ميں يہ حالت تھي کہ جب کوئي شخص کيتھولکي مذہب کي فروعات پر تنقيد کرتا تو انتہائي سخت سزا دي جاتي تھي چہ جائيجہ وہ مذہب کے اصوول پر تنقيد کرتا -
برونو ‘ ايک اٹالين پادري نے کيا کہا تھا جو اسے زندہ جلا ڈالا گيا- اس شخص کو 1600 عيسوي ميں اس لئے جلا ڈالا گيا کہ يہ اصول و فروع کے لحاظ سے کيتھولکي مذہب سے مطابقت نہيں رکھتا - برونو نے کہا تھا کہ عقل آ جانے کے بعد دنيا اور زندگي کے بارے ميں انسان وہ عقيدہ اپنا ليتاہے جو عقل و فہم کے مطابق ہو -
يہي سادہ اور اسان فہم عقيدہ اسے زندہ جلانيکا باعث بنا جس وقت برونو کو جلا گيا اس کي عمر باون سال تھي اور جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اس وقت سے اسے مرتد قرار دينے اور جيل بھيجنے تک وہ بغير کسي مبالغے کے محتاجوں کي مدد اور بيواğ کي دسگيري اور بيماريوں کے علاج معالجے کے طرف توجہ ديتا رہا -
جيسا کہ چيونٹي کي سب سے بڑي خوشي اور لذت يہ ہے کہ اپني غذا کا دوسري کو دے ديتي ہے اور خود بھوکي رہتي ہے -
چيور دانو برونو کو بھي اپنے آپ کو مصيبت ميں ڈالنے اور دوسروں کو آرام پہنچانے ميں خوشي محسوس ہوتي تھي جس دن سيبرونو ڈومينکي مذہبي فرقے کا روحاني پيشوا بن ااس وقت سے جيل خانے تک ايک دن بھي ايسا نہيں گذرا کہ کوئي حاجت مند اس کے ہاں نہ آيا ہو اور برونو نے اسے نا اميد واپس بھيج ديا ہو وہ جہاں رہتا اس کا گھر ہميشہ کھلا رہتا يہاں تک کہ راتوں کو بھي اس کے گھر کا دروازہ کھلا رہتا اور جب کبھيکوئي حاجت مند رات کو اس کے گھر آتا برونو نيند سي بيدار ہو کر اپني استطاعت کے مطابق اس کي حاجت روائي کرتا -
جو نہي برونو کو لائے اور اپنے تير کا نشانہبنايا تمام تماشائي دھاڑيں مار مار کر رونے لگے اور جلاد جس کے پاس جلتي ہوئي مشعل تھي اس نے اسے جيل سے لکڑي کے ڈالے ہوئے انبار کے نزديک کر ديا تاکہ لکڑي کا انبار نورا آگ پکڑ سکے اور وہ شخص جس نے اپني زندگي محتاجوں اور درد مندوں کي خدمت کے لئے وقف کر دي تھي درناک اھوں اور سسکيوں کے درميان دم توڑ گيا اور اس کے گوشت کي بو فضا ميں پھيل گئي اس کي ساري عمر کي نيکو کاري اسے درد ناک موت سے نہ بچا سکي -
آج ہمارے خيال کے مطابق برونو نيجو کچھ کہا وہ منطقي اور قابل قبول ہے -
ليکن سولہويں صدي عيسويکے آخر ميں عقيديکي تفتيش کرنے والي تنظيم نے کہا برونو کے اظہار خيال کو عيسي کي ذہانت کي مخالفت قرار ديا اور اس کا فيصلہ اس طرح ديا کہ ہر عيسائي کو بالغ و عاقل ہونے کے بعد دنياکے متعلق " عہد عتيق اور عہد جديد " (دو کتابيں ) کے مطابق عمل کرنا چاہيے نہ کہ اپني عقل و فہم کے مطابق اور چونکہ برونو نے کہا ہے کہ آدمي اپني عقل و فہم کے مطابق دنياوي فيصلے کرتا ہے لہذا وہ مرتد ہے اورا س کے ارتداد کي وجہ شيطان کا اس کے جسم ميں حلول کر جانا ہے پس اسے جلانا چاہيے تاکہ شيطان اس کے جسم سے خارج ہو -
ليکن شيعہ ثقافت ميں مختلف مسائل کے متعلق اس قدر آزادي سے بحث کي جاتي تھي کہ تيسري صدي ہجري کے پہلے دور ميں ابن راوندني جيسا انسان اسلامي دنيا ميں نمودار ہوا -
بشکريہ : الحسنين ڈاٹ کام
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان