• صارفین کی تعداد :
  • 1904
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

امام (ع)، کا نبي کي حمايت کرنا

امام علی(ع)

مسلمانوں پر شکست کے بادل منڈلانے لگے وہ حيران و پريشان ھو کر بھاگ کھڑے ھوئے ، ان پر خوف طاري ھو گيا ،انھوں نے نبي کو اللہ کي دشمنوں ميں گھراھوا چھوڑ ديا ،آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم)کو کئي کاري زخم لگ گئے اورآپ(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) ايک گڑھے ميں گر گئے جو ابو عامر کي سازش سے اسي مقصد کے لئے تيار کرکے مخفي کر ديا گيا تھاتاکہ مسلمان نا دانستہ طور پراس ميں گر جا ئيں ،امام (ع) رسول اللہ(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے دائيں طرف تھے ، آپ (ع) نے رسول کا دست مبارک پکڑا اور طلحہ بن عبداللہ نے آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کو اٹھايا يھاں تک کہ آپ کھڑے ھوگئے نبي اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے امام (ع) سے مخاطب ھو کر فرمايا : يا علي(ع) مافعل الناس ؟“ اے علي (ع) لوگوں نے کيا کيا ؟“-

آپ (ع) نے بڑي رنجيدگي کے ساتھ جواب ديا : ”‌انھوں نے عھد توڑ ديا اور پيٹھ پھرا کر بھاگ کھڑے ھوئے “- قريش کے کچھ افراد نے نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) پر حملہ کيا جس کي بناپر نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کا دل تنگ ھو گيا آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے علي سے فرمايا : ”‌اَکْفِنِيْ ھٰوُلَاءِ “،امام (ع) نے اُن پر حملہ کيا ،سفيان بن عوف کے چار بيٹوں اور اس کے گروہ کے چھ آدميوں کو قتل کيا ،اور بہت جد و جھد کے ساتھ دشمن کي اس ٹولي کو نبي سے دور کيا،ھشام بن اميہ کے دستہ نے نبي پر حملہ کيا تو امام (ع) نے اس کو قتل کرڈالا اور اس کا گروہ بھاگ کھڑا ھوا ، ايک اور گروہ نے بشربن مالک کي قيادت ميں نبي پر حملہ کيا امام (ع) نے اس کو قتل کرڈالا تو اس کا دستہ بھي بھاگ کھڑا ھوا ، اس وقت جبرئيل نے امام (ع) کے جھاد اور آپ (ع) کے محکم ھونے کے متعلق فرمايا:”‌علي (ع) کے اس جذبہ ايثار و قرباني اور مو اسات سے ملائکہ حيرت زدہ ھيں “نبي(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے جبرئيل سے فرمايا :’  ’علي (ع) کو کو ئي چيز نھيں رو ک سکتي کيونکہ علي (ع) مجھ سے ھيں اور ميں علي (ع) سے ھوں “، اس وقت جبرئيل نے کھا : ميں تم دونوں سے ھوں “-

امام(ع) بڑي طاقت و قدرت کے ساتھ نبي(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کا دفاع کر تے رھے ،آپ کو سولہ ضربيں لگيں اور ھر ضرب زميں بوس کر دينے والي تھي ،جبرئيل کے علاوہ آپ (ع) کو کو ئي سھارا دينے والا نھيں تھا ، مولائے کائنات نے راہ اسلام ميں جن مصائب کا سامنا کياان کا علم صرف خدا کو ھے “-

اس جنگ ميں اسلام کے بھادر رسول اللہ(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے چچا جناب حمزہ شھيد ھو گئے ،جب ھند کو يہ خبر ملي تو وہ خوش ھو کر آپ کے لاشہ کي تلاش ميں نکلي جب اس کي نظر لاش پر پڑي تو وہ کتے کي طرح لاش پر جھپٹ پڑي اور اس نے آپ کي لاش کوبري طرح مثلہ کرديا، جناب حمزہ کا جگر نکالا اوردانتوں سے چباکر پھينک ديا ، آپ کاناک اور کان کاٹ کر ان کا ھار بناکر پھن ليا --يہ بات اس کے کينہ درندگي اوروحشي پن پر دلالت کرتي ھے ، اس کا شوھر جلدي سے جناب حمزہ کي لاش پر آيا اور بغض و کينہ سے بھرے دل سے بلند آواز ميں کھنے لگا : ”‌يااباعمارة دارالدھروحال الامر،واشتفت منکم نفسي ---

پھر اس نے اپنا نيزہ بلند کيا اور جناب حمزہ کے لاشہ ميں چبھو کر اس جملہ کو اپني زبان پر دُھرايا : ذق عنق، ذق عنق اس کے بعد وہ اپني آنکھوں کو ٹھنڈاکرکے پلٹ گيا،روايت ميں آيا ھے کہ اس کا دل جناب حمزہ شھيدسے بغض، کينہ ،کفروشرک اور رذائل سے مملو تھا -

ليکن جب نبي کريم اپنے چچا کي لاش پر آئے جس کو ھند نے مثلہ کر ديا تھا تو آپ(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) بہت زيادہ محزون و رنجيدہ ھوئے آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے اپنے چچا سے مخاطب ھو کر فرمايا : ”‌ميرے اوپر آپ (ع) کے جيسي مصيبت کبھي نھيں پڑي اور ميں ايسے حالات سے کبھي دو چار نھيں ھوا مجھے اس واقعہ سے غيظ آگيا ھے اگر صفيہ کے حزن و ملال اور ميرے بعد سنت بن جانے کا خوف نہ ھوتا تو ميں اس کو اسي طرح چھوڑ ديتا يھاں تک کہ وہ درندوں اور پرندوں کي غذا بن جاتا ،اور اگر خدا مجھے کبھي قريش پر غلبہ ديتا تو ميں اُن ميں سے کم سے کم تيس آدميوں کو مثلہ کر ديتا “-

جب مسلمان اس مقدس اور مثلہ لاش پر آئے تو کھنے لگے :اگر خدا نے ھميں کسي دن اُن پر فتح عنايت کي تو ھم ان کو اسي طرح مثلہ کريں گے کہ کسي عرب نے ايسا نھيں کيا ھوگا ---اس وقت جبرئيل يہ آيت ليکر نا زل ھوئے :< وَاظ•ِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ - وَاصْبِرْوَمَاصَبْرُکَ اظلاَّبِاللهِ وَلاَتَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَلاَتَکُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْکُرُونَ>-

”‌اور اگر تم ان کے ساتھ سختي بھي کرو تو اسي قدر جتني انھوں نے تمھارے ساتھ سختي کي ھے اور اگر صبر کرو تو صبر بھر حال صبر کرنے والوں کےلئے بہترين ھے اور آپ صبر ھي کريں کہ آپ کا صبر بھي اللہ ھي کي مدد سے ھوگا اور ان کے حال پر رنجيدہ نہ ھوں اور ان کي مکاريوں کي وجہ سے تنگدلي کا بھي شکار نہ ھوں “-

رسول (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) اللہ نے بخش ديا ،صبر کيا ،اور ان کو مثلہ کرنے سے منع کرتے ھوئے فرمايا :”‌اِنَّ المُثْلَةَ  حَرَامُ وَلَوْ بِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ“”‌مثلہ کرنا حرام ھے اگر چہ وہ کاٹ کھانے والا کتّا ھي کيوں نہ ھو “-

صرف جنگ احد ھي ايسي جنگ ھے جس ميں مسلمانوں کو شکست فاش ھو ئي -ابن اسحاق کا کھنا ھے : يوم احد بلا و مصيبت کا دن تھا جس ميں اللہ نے مو من اور منافق کا امتحان ليا اور منافق واضح طور پر سامنے آگئے ، منافق اس کو کہتے ھيں جو زبان سے ايمان کا اظھار کرے اور اس کے دل ميں کفر ھو ، وہ ايسا دن تھا جس دن اللہ نے ان افراد کوشھا دت کي کرامت عطا کي جنھوں نے شھادت کي کرامت طلب کي ھے - اس معرکہ کے بعد رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے حضرت علي (ع) کو خبردار کيا کہ مشرکين کي طرف سے مسلمانوں کو کبھي بھي اس طرح کا نقصان نھيں پھنچے گا اور خداوند عالم مسلمانوں کو فتح و کاميابي سے ھمکنار کرے گا-