فلسطینی جہاد اسلامی کے اعلی کمانڈر محمد شحادہ، کیوں شیعہ ہوئے؟
محمد شحادہ کو فلسطینیوں نے «الفارِس»، (سوار) اور «القائد الاسطوري» (افسانوي راهنما) جیسے مختلف القاب سے نوازا ہے
وہ سازش و خیانت کے نتیجے میں شہید ہوئے ہیں؛ فلسطيني ذرائع ابلاغ كا مطالعہ كرتے وقت ان قوتوں کا ذکر بار بار پڑھنے کو ملتا ہے جن کو فلسطيني عوام نے مورد الزام ٹہرایا ہے. انہوں نے کئی برس صہیونی ریاست کی جیلوں میں گذارے؛ آزادی کے بعد جدوجہد کے میدان میں جہاد اسلامی تحریک کے نمائندے کے عنوان سے میدان جہاد میں حاضر ہوئے؛ اچھے مقرر تھے اور تحریک جہاد کی جانب سے مختلف حلقوں میں تقریریں کیا کرتے تھے؛ محمد شحادہ کو ایک انقلابی شیعہ کے عنوان سے فلسطین کی آزادی کی خاطر اتحاد بین المسلمین سب سے زیادہ عزیز تھا؛ وہ تعصب سے پرہیز کیا کرتے تھے اور مظلوم فلسطینیوں کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے اور یہ دو صفتیں ان کی امتیازی خصوصیات تھیں اور ساریے فلسطینی ان کی ان خصوصیات کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں.
المجلّہ سعودی سلفیوں سے وابستہ رسالہ ہے جس نے محمد شحادہ کے ساتھ انٹرویو ترتیب دیا اور بعد میں اس مجلے نے اسی انٹرویو کے ہمراہ کئی مضامین اور انٹرویوز کا اضافہ کرکے شہید محمد شحادہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم میں شامل ہوا.
یہ انٹرویو المنبر رسالے کے ساتھ محمد شحادہ کے انٹرویو سے قبل لیا گیا تھا اور المنبر کے ساتھ ان کے انٹرویو میں اس انٹرویو کا ذکر بھی پایا جاتا ہے .
محمد شحادہ نے تشیع بہت پہلے قبول کیا تھا مگر بعض لوگوں کو اس واقعی کی اطلاع بعد میں ملی اور «المجلّہ» رسالے کے مدیران بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں جن کو شحادہ کی شیعیت کا علم نہیں تھا:
المجلّہ لکھتا ہے : محمد حال ہی میں شیعہ ہوگئے ہیں حالانکہ فلسطینی معاشرہ ایک سنی معاشرہ ہے جو شیعہ مذہب سے واقفیت نہیں رکھتا اور پھر محمد شحادہ جہاد اسلامی تحریک کے رکن ہیں جو ایک سنی تحریک شمار کی جاتی ہے !
ذیل میں المجلّہ کے ساتھ شحادہ کا انٹرویو پیش خدمت ہے :
المجلّہ : آپ نے تشیع کے مائل ہونے کا کب اعلان کیا؟
محمد شحادہ : میں جب بھی اس طرح کے مسائل کے بارے میں بات کرتا انہیں تاریخی حقائق کے عنوان بیان کیا کرتا تھا لیکن کہا جاسکتا ہے کہ حزب اللہ کی ناقابل انکار فتوحات کے بعد میں نے اپنے شیعی تشخص و شناخت کو فاش کیا.
المجلّہ : آپ کے شیعہ ہونے کا رد عمل کیا رہا؟
محمد شحادہ : حزب اللہ کی کامیابی پوری امت اسلامی اور دنیا کے سارے حریت پسندوں اور تمام اسلامی تحریکوں حتی کہ شیعہ مخالف اسلامی تحریکوں کی کامیابی تھی. یہ تمام تحریکیں رفتہ رفتہ اس عظیم فتح کے مثبت اثرات سے فائدہ اٹھائیں گی اور میں نے بھی اس کامیابی کے بعد محسوس کیا کہ مناسب موقع آن پہنچا ہے . البتہ میں نے [دیگر شیعیان اہل بیت کی مانند] اسلام کے دائرے سے خارج کوئی کسی موقف کا اعلان نہیں کیا اور میں نے جو بھی کہا اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کے دائرے ہی میں تھا.
بشکریہ رسالہ " المجلہ "
متعلقہ تحريريں:
شہید عماد مغنیہ کے اوصاف؛ بیٹی کے زبانی
آمنہ بنت الہدي، ايک جليل القدرخاتون!
ڈاکٹر موسي ابو مرزوق سے انٹرويو
آية اللہ العظمي سيد محمد حسين فضل اللہ دام ظلہ کا انٹرويو
اسعد بن علي