شہید عماد مغنیہ کے اوصاف؛ بیٹی کے زبانی
شہید حاج رضوان یا عماد مغنیہ، وہی مرد مجاہد ہیں جن کا امریکہ اور عالمی صہیونیت نے 30 برس تک تعاقب کیا اور صرف اسی وقت انہیں دہشت گردی کا نشانہ بناسکے جب بعض "عرب بھائیوں" نے ان کی ساتھ قریبی تعاون کیا اور اس سازش میں کئی عرب ملکوں کی مالی حمایت یا سفارتخانوں کا براہ راست کردار امریکہ اور عالمی صہیونیت کی سازش کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوا۔
شہید کبھی مرتا نہیں؛ یہ قرآن مجید کا قول ہے اور اس سلسلے میں اللہ تعالی نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا ہے کہ "اور اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی حیات کا شعور نہیں"
(سورہ بقرہ آیت 154)
"اور راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کے ہاں رزق پاتے ہیں" (سورت آل عمران آیت 169)
سو اسرائیل اور امریکہ کو بہت سے سبق سکھانے والے اور 33 روزہ جنگ میں اسرائیل اور مغربی دنیا کی سفارتکاری سے لے کر دولت و ثروت و فوجی طاقت کو شرمندگی سے دوچار کرنے والے عماد مغنیہ زندہ ہیں... اور فاطمہ ان کی بیٹی ہیں جنہوں نے شہید عماد کے بعض اوصاف بیان کئے ہیں جو اس سے قبل بیان نہیں ہوئے تھے:
فاطمہ کہتی ہیں:
* میرے جاننے والوں کو معلوم نہ تھا کہ میں شہید عماد کی بیٹی ہوں؛ جب والد جام شہادت نوش کرگئے تو میں نے بھی ان سے اپنا تعارف کرایا۔
فاطمہ مغنیہ نے اپنے والد شہید عماد مغنیہ المعرف "حاج رضوان" نے بعض ذرائع ابلاغ کو بتایا:
شہید عماد ایک حقیقی باپ تھے جو باپ کے تمام فرائض پر بخوبی عمل کرتے تھے؛ ان کے ساتھ میرا تعلق دو دوستوں جیسا تعلق تھا جس میں اخلاص کا عنصر بہت نمایاں تھا اور میرا ان سے رابطہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اور میں بہت سے چھوٹے اور جزئی مسائل میں بھی ان سے مشورہ کیا کرتی تھی۔
* وہ گھر کے اندر مہربان اور ذمہ داری قبول کرنے والے باپ تھے میرے لئے حقیقی اور خیرخواہ دوست تھے اور اپنے فرزندوں کے لئے نہایت مخلص اور دلسوز استاد۔
انھوں نے "الانتقاد ویب سائٹ" کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: ہم طویل عرصے سے فکرمند تھے کہ کہیں والد کو کوئی واقعہ پیش نہ آئے حتی اس مسئلے کے بارے میں سوچ کر رویا کرتے تھے؛ ہم ان کی نہایت سخت سیکورٹی صورت حال سے واقف تھے اور ہمیں تشویش تھی کہ وہ کہیں شہید یا اسیر نہ ہوجائیں مگر ہم یہ افکار اپنے ذہنوں سے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے؛ ہمارا خیال ہرگز نہ تھا کہ ان کی شہادت اتنی قریب ہوگی۔
* میرے والد دینی اور مذہبی عقائد و احکام منجملہ اسلامی حجاب کے سختی سے قائل تھے مگر وہ انتھا پسند نہیں تھے گو کہ افعال حرام سے دوری اور اجتناب پر بہت تأکید کیا کرتے تھے۔
* شہید عماد مغنیہ میرے لئے ایک مخلص اور ہمدر استاد اور مشاور تھے۔ ان کی شہادت سے قبل میں پولیٹیکل سائنس کے امتحانات میں مصروف تھی؛ والد نے ایک بار میرے نصاب کی ایک کتاب کو مختصر کرکے اور اس کا خلاصہ لکھ کر میرے حوالے کیا اور سیاسی علوم کے بعض موضوعات کی تشریح کی؛ جب میں کسی موضوع کے بارے میں ان سے سوال کرتی تو وہ نہایت حوصلے سے میرا سوال سنتے اور وضاحت کرتے۔
* شہداء اپنی زندگی معاشرے پر قربان کردیتے ہیں اور ہمارے بیچ سے رخصت ہوجاتے ہیں تا ہم شہید عماد مغنیہ کے بارے میں، کہہ سکتی ہوں کہ وہ اسی وقت بھی گویا ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور ہمارے ساتھ ہی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
* میرے بہت سے جاننے والوں کو معلوم نہ تھا کہ میں عماد مغنیہ کی بیٹی ہوں اور جب والد شہید ہوئے تو بہت سے دوست مجھ پر ناراض ہورہے تھے کہ میں نے اس سے قبل اپنے والد کا تعارف کیوں نہیں کرایا تھا..۔ میں اس سے پہلے انہیں حقیقت نہیں بتا سکتی تھی مگر آج میں فخر سے کہتی ہوں کہ میں عماد مغنیہ کی بیٹی ہوں۔
* ضروری نہیں ہے کہ شہید کا بیٹا، زوجہ یا بیٹی شہید ہی کی شخصیت کا نسخہ ہو؛ ہر شخص کی زندگی کے اپنے خاص مقاصد ہوتے ہیں تاہم ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم نے جو شہید سے سیکھا ہے دوسروں کو منتقل کردیں اور انہیں خاص طور پر شہداء کے افکار سے روشناس کرائیں۔
تعارف:
* شہيد "عماد مغنيہ " المعروف "حاج رضوان " ـ جنہوں نے صہیونی ریاست کی خلاف سب سے زیادہ کاروائیوں کا ریکارد اپنی نام سے قائم کیا ہی۔
* شہید عماد مغنیہ لبنان کی نامی گرامی عالم دین مرحوم "آیت اللہ جواد مغنيہ" کی فرزند تھی اور ان کی دو بھائی "جہاد مغنیہ" اور "فؤاد مغنیہ" ان سے قبل شہید ہوگئی تھی۔
شہادت:
اسرائیل، امریکہ اور بعض عرب حکمرانوں کی مشترکہ سازش کے تحت ان کی کار میں بم رکھا گیا تھا جو دھماکے سے پھٹ گیا اور عماد مغنیہ 19 فروری 2009 کو اس دہشت گرد کاروائی کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔
ابنا ڈاٹ آئی آڑ
متعلقہ تحریریں:
ڈاکٹر موسی ابو مرزوق سے انٹرویو
آیۃ اللہ العظمی سید محمد حسین فضل اللہ دام ظلہ کا انٹرویو