• صارفین کی تعداد :
  • 2374
  • 5/18/2011
  • تاريخ :

صفات شيعه ( حصّہ هفتم )

بسم الله الرحمن الرحیم

ہمارے زمانہ کی کچھ خاص شرطیں ہیں ۔ہم اپنے ملک میں اور دنیا کے اکثر مناطق میں تین مشکلوں سے روبرو ہیں ۔

اول: سیاسی بحران : یہ کبھی نہ سلجھنے والا الجھاؤ ہے جو آج کل اور زیاد الجھ گیا ہے  اور جس کے انجام کے بارے میں کوئی اچھی پیشن گوئی نہیں ہو رہی ہے ۔

دوم: اقتصادی بحران: مکان کی مشکل، شادی بیاہ کے خرچ کی مشکل، بے روزگاری و غیرہ کی مشکلیں ۔

سوم:اخلاقی بحران:  میرا خیال ہے کہ یہ ان دونوں بحرانوں سے زیادہ خطرناک ہے خاص طور پر وہ بحران جس نے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا دامن پکڑلیا ہے  اور ان کو برائی کی طرف کھینچ رہا ہے  اس اخلاقی بحران کی بھی تین وجہیں ہیں :

1.  وسائل کا پھیلاؤ :

جیسے مختلف اقسام کی سی ، ڈی،فوٹو،فلمیں،ڈش و انٹرنٹ وغیرہ جنسی مسائل کو آسانی کے ساتھ ہر انسان تک پہونچانے کا سبب بنے ہیں ۔

2. کسی شرط کے بغیر پوری آزادی :

دوسرے الفاظ میں آزادی کے نام پر قید ،آزادی کے نام پر شہوت کے پنجوں میں قید،اس طرح کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا بہت سے افراد کی شرمندی کا سبب ہو جاتا ہے ۔آزادی جو کہ انسان کے تکامل کا ذریعہ ہے  اس کی اس طرح  تفسیر کی گئی کہ وہ انسان کی پستی اورگراوٹ کا وسیلہ بن گئی ۔

3.  دست پس پردہ :

  کچھ لوگون کا ماننا ہے کہ اگر جوان خراب ہو جائیں تو پھر ان پر قابوپانا آسان ہے ۔انھوں نے اس راہ میں دین و اخلاق کو مانع  پایا ہے ۔ انھوں نے صحیح سوچا ہے کیونکہ جو ملت گناہوں، برائیوں اور منشیات کے جال میں پھس جائے گی وہ کبھی بھی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

کیا ہم ان مسائل کے مقابلہ میں خاموش ہو کر بیٹھ جائیں اور دعا کریں کہ مصلح آجائے ۔ یہ ڈرپوک اور سست انسانوں کی باتیں ہیں ۔ کربلا میں چند ہی نفر تو تھے جنھوں نے قیام کیا۔  پیغمبر اسلام کو  ہی لے لیجئے جنھوں نے تن تنہا لوگوں کو حق کی دعوت دی یا جناب ابراہیم علیہ السلام جو تنہا ہی کھڑے ہو گئے تھے ۔ حق و  عدالت کے راستے میں تعداد کی کمی سے نہیں گھبرانا چاہئے ”لا تستو حشوا فی طرق الہدیٰ للقلة اہلہ “

الحمد للہ کہ اب افراد کی کمی نہیں ہے، پندرہ شعبان کو مسجد جمکران کے چاروں طرف میدان عرفات سے زیادہ لوگ جمع تھے اور ان میں جوانوں کو اکثریت حاصل تھی، یا اعتکاف کو لے لیجئے اس میں جوان اتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کہ جگہ کم رہ جاتی ہے یہ سب آپ کی فوج ہے ۔

ہمیں چاہئے کہ ہماری ذات ، ہماری زبان ، ہمارا قلم دوسروں کے لئے نمونہ ہو، تاکہ اس اخلاقی بحران کا مقابلہ کر سکیں۔ اس راہ میں اللہ کے وعدے ہمارے حوصلوں کو بڑھاتے ہیں ۔ عوام اب بھی روحانیت کو اپنا محرم اسرار مانتے ہیں جس علاقہ میں بھی تبلیغ کے لئے جاؤ وہاں کے لوگوں کی مشکلوں کو نظر میں رکھو اوران سے مسئولین کو آگاہ کراؤ ، لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک عوامی گروہ جو کہتا ہے کہ ماہ رمضان میں پاک ہو جائیں گے، اور دوسرا گروہ خواص کا ہے جو کہتا ہے کہ ماہ شعبان میں پاک ہو کر رمضان میں وارد ہوں گے کیونکہ ماہ رمضان اللہ کی مہمانی کا مہینہ ہے  اس لئے مہمان کو چاہئے کہ پہلے ہی پاک ہو جائے لہٰذا ہمیں اپنی زبان و آنکھوں کو ماہ شعبان میں ہی پاک کرلینا چاہئے تاکہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکیں اور اس بارے میں ہمیں لوگوں کو بھی آگاہ کرنا چاہئے کہ ماہ  شعبان اپنے آپ کو سنوارنے اور اللہ کی ضیافت کے لئے تیار ہونے کا مہینہ ہے ۔ میں آپ سب حضرات سے اس بات کا امید وار ہوں کہ اپنے پروگراموں اور مسائل کو کامیابی کے ساتھ انجام دو اور سیاسی جھمیلوں میں نہ پھنس کر سب لوگوں کو اتحاد کی دعوت دو ۔ ہمارے سامنے کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ ہم خود مشکلوں کو جنم دیتے ہیں ۔ ہم سب کو چاہئے کہ آپس میں متحد ہو جائیں کیونکہ دشمن اپنی تیاری پوری کرچکا ہے  وہ جب آئے گا تو کسی کو  بھی نہیں چھوڑے گا۔

الشیعہ ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

شيعوں کے صفات ( حصّہ چہارم )

شيعوں کے صفات ( حصّہ سوّم)

شيعوں کے صفات (حصّہ دوّم)

شيعوں کے صفات

شیعہ، اہل بیت کی نظر میں