• صارفین کی تعداد :
  • 2735
  • 5/11/2011
  • تاريخ :

عالم ہستی کے امیر کی جانب ( حصّہ سوّم )

امام مھدی علیہ السلام

کیا ہم زیارت جامعہ میں نہیں پڑھتے ہیں :''بکم ینزّل الغیث'' آپ کی وجہ سے باران رحمت آتی ہے ، لیکن ایسے ہی تھا اور ہے کہ اصل کو بھلا دیتے ہیں اور فرع کی تلاش میں رہتے ہیں بالکل اسی طرح کہ ہم مسبب الاسباب کو فراموش کر دیتے ہیں اور اسباب کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔

حاجی شیخ رجب علی خیاط مرحوم کی ایک نصیحت

مرحوم شرفی جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے منتظر رہنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے جب میں تبلیغ کے لئے مشہد مقدس سے دوسرے شہر جایا کرتا تھا، تو ایک مرتبہ ماہ مبارک رمضان کی مسافرت میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ تہران حاجی شیخ رجب علی خیاط کے یہاں مشرف ہوا اور ان سے راہنمائی کی درخواست کی ۔

انھوں نے آیت کریمہ (ومن یتّق اللہ...)کے ختم کا طریقہ ہمیں سکھایا اور فرمایا پہلے صدقہ دو اور چالیس روز روزہ رکھو اور اس ختم کو چالیس روزں کے درمیان انجام دو ۔

اہم نکتہ جس کو حاجی شیخ رجب علی نے بیان فرمایا یہ تھا کہ تمھارا مقصود اس ختم سے یہ ہو کہ امام رضا علیہ السلام سے آنحضرت (عج) کے تقرب کو طلب کرو اور مادی حاجت قطعی نظر میں نہ رکھو ۔

مرحوم آقای شرفی نے فرمایا :

ہم نے ختم شروع کیا لیکن اسے جاری نہ رکھ سکا 'لیکن میرا دوست ختم مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب ہم مشہد پہنچے اور امام رضا علیہ السلام کی زیارت سے حرم میں مشرف ہوئے، وہ متوجہ ہوا کہ وہ آنحضرت (عج) کو نور کی شکل میں دیکھ رہا ہے دھیرے دھیرے یہ حالت اس کے اندر قوی ہوتی گئی کہ اب وہ آنحضرت (عج) کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے پر قادرہوگیا ۔

اس اہم واقعہ کو نقل کرنے سے ہمارا مقصود ایک اہم نکتہ کی طرف متوجہ کرنا ہے جو دعائوں اور وسیلہ بنانے میں موجود ہے وہ یہ کہ نماز ادا کرنے،دعائیں پڑھنے اور وسیلہ بنانے و... میں اخلاص کی رعایت کے علاوہ انھیں انجام دینے کا ہدف خدا اور اہل بیت (ع) سے تقرب ہونا چاہئے یعنی بندگی اور بندہ ہونے کے لئے انجام دے نہ مقام و منصب کے حصول کے لئے ۔

مشہور اور روحانی افراد میں سے ایک صاحب دعائوں اور ختم کے ذریعے بہت سے افراد کی مشکلات کو حل کرتے تھے ایک ایسے شخص (جس کو صاحب بصیرت خیال کرتے تھے) سے ملاقات کے وقت اس سے سوال کیا کہ میں روحی اور باطنی لحاظ سے کیسا ہوں ؟

انھوں نے تھوڑی دیر تامل کے بعد فرمایا : تم نے خدائی کاموں میں بہت زیادہ دخالت کی ہے ۔

لہٰذا انسان کو دعائوں کے ذریعہ غلظ فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے، بلکہ اسے بندگی کے لئے وسیلہ اور بندگی کا مقصد قرار دینا چاہئے ، تو انسان کو اس کے ذریعہ خدائی کاموں میں دخالت نہیں کرنی چاہئے، اور نہ ہی لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ذریعہ بنانا چاہئے۔

مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مجھ میں اتنی قدرت ہے کہ اگر لوگ صرف ہمارے دروازے پر دستک دیں تو ان کی مشکلات حل ہوجائیں اور انھیں کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہ ہو لیکن چوں کہ امام رضا علیہ السلام کی نسبت لوگوں کے عقیدے میں سستی پیدا ہونے کا باعث ہے اس لئے اسے میں انجام نہ دو ں گا ۔

تحریر : علامہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

mahdimission.com


متعلقہ تحریریں:

نگاہ دہر ہے پھر ابن  بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ پنجم )

نگاہ دہر ہے پھر ابن  بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ چهارم )

منتظَر ہونا

نگاہ دہر ہے پھر ابن  بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ سوّم)

نگاہ دہر ہے پھر ابن بوتراب (عج) کی سمت ( حصّہ دوّم )