• صارفین کی تعداد :
  • 2044
  • 5/10/2011
  • تاريخ :

فلسفہٴ قربانی (حصّہ ششم)

بسم الله الرحمن الرحیم

سعی کی منزل میں کہ جب بچہ"فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہ السَعْیَ"، جب وہ سعی کی منزل میں پہنچا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس میں دونوں پہلو ہیں۔ کمسنی کا پہلو بھی کہ ابھی وہ جوانی تک نہ پہنچا۔ ایک عمر کے بڑھنے کا بھی پہلو کہ ایسا چھوٹا نہ تھا۔ ایسا تھا کہ چل پھر سکے ، باپ کا مددگار ہوسکے۔

یہ دو پہلو تھے اسماعیل میں جسے قرآن نے ایک لفظ میں جمع کیا تھا۔ میں دو جملوں میں مصیبت کے دو دفتر کھولے دیتا ہوں کہ وہ جو ذرا عمر کے بڑھنے کاپہلو تھا، وہ ترقی کرکے علی اکبر تک پہنچا اور وہ جو کمشنی کا ہے، وہ ترقی کرکے علی اصغر تک پہنچا۔وہ ذرا باپ کے مددگا رہوسکتے تھے کہ چل پھر سکتے تھے اور وہ بیٹا اگر قربان ہو جو باپ کا دست و بازو بن چکا ہو، مکمل جوان ہو! مشہور روایت کے مطابق اٹھارہ برس اور کچھ علماء کے نزدیک پچیس برس اور عباس کی عمر بتیس برس یعنی دونوں تقریباً برابر کے جوان۔

میں نے کسی کتاب میں تو نہیں دیکھا، عراق کے منبروں پر سنا ہے، انہوں نے کہیں دیکھا ہوگا کہ یہ عباس و علی اکبر دونوں جوان اور نوجوان کیسے تھے کہ جب مدینہ کے بازار میں نکلتے تھے تو جب تک سامنے رہتے تھے، خرید و فروخت موقوف رہتی تھی۔ سب کاروبار بند ہوجاتا تھا۔ لوگ دونوں جوانوں کو دیکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ چچا بھتیجے ایسے برابر کے جوان تھے۔ اب حسین کے دل کی خبر لیجئے کہ عباس جا چکے اور علی اکبر سامنے کھڑے ہیں۔

عموماً عشرئہ محرم کے بعد وہ اثر نہیں رہتا جو عشرئہ محرم کی مجالس میں رہتا ہے۔ مگر بحمد للہ آپ ہر مجلس میں یہ ثبوت دیتے ہیں کہ آپ کیلئے وقت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ ہر وقت آپ ویسا ہی اثر لے سکتے ہیں۔ ایک پہلو عرض کروں کہ خود کسی مصیبت کا ضبط کرنا اور اٹھا لینا آسان ہوتا ہے لیکن کسی تڑپتی ہوئی ماں کو دیکھنا، کسی بلکتی ہوئی بچی کو دیکھنا، کسی روتی ہوئی بہن کو دیکھنا، یہ وہ ہے کہ جب صبروضبط کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ ہم نے ایسے متحمل دیکھے ہیں کہ قبرستان میں جنازہ لے گئے ہیں، نہیں روئے۔ دفن کرکے آئے، نہیں روئے۔ مگر جب گھر پر آکر کسی بچی کو تڑپتا ہوا دیکھا، کسی ماں کو روتا ہوا دیکھ لیا تو اب گریہ طاری ہو گیا۔

اب ذرا غور کیجئے کہ جنابِ ابراہیم بڑے صاحب ِعزم مگر جب جانے لگے تو ماں کو نہیں بتایا کہ کہاں لئے جارہا ہوں۔ جنابِ ہاجرہ نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہیں ؟ تو بالکل صحیح کہا کہ ایک دوست کے بلانے پر جارہا ہوں۔ خلیل اللہ تھے، ان کو یہ کہنے کا حق تھا کہ دوست کی فرمائش پر جا رہا ہوں۔ اس کے بعد چھری اور رسی مانگی تو اب جنابِ ہاجرہ پریشان ہوئیں۔ کہا کہ یہ چھری اور رسی کیا کیجئے گا؟ کہا کہ دوست کے ہاں جارہا ہوں، ممکن ہے قربانی کی ضرورت پڑے۔پھر ہاجرہ خاموش ہوگئیں۔ اس کے بعد وہاں گئے، فدیہ آگیا۔ واپس آئے تو خیال کیا کہ اب بیا ن کر کے کیاکروں؟ اب تو روزِ قربانیِ اسماعیل عید بن چکا، اب ذکر کرکے کیا کروں!

چند دن کے بعد جنابِ ہاجرہ نے لباس کی تبدیلی کیلئے جو پیرہن اسماعیل کے جسم سے جدا کیا تو گلے پر ایک خط نظر آیا، پوچھا:

یا خلیل اللہ! یہ خط کیسا ہے؟ اب جنابِ ابراہیم نے خیال کیا کہ اب تو کئی دن گزر گئے، پورا واقعہ بیان کردیا۔صاحب ِعقل بی بی تھیں، متوکل علی اللہ بی بی تھیں، کہا تو کچھ نہیں مگر نفسیاتی اثر یہ پڑا کہ اسی دن بیمار ہوگئیں اور اسی بیماری میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ یہ تصور کہ اگر فدیہ نہ آتا تو میرا بچہ ذبح ہوگیا ہوتا۔

میں کہتا ہوں کہ خبر لیجئے لیلیٰ کے دل کی۔ کیا جب علی اکبر چلے تو لیلیٰ کو نہیں بتایا کہ کہاں جارہے ہیں؟ خد اکی قسم! جانتی تھیں کہ جہاں سب گئے ہیں اور واپس نہیں آئے، وہیں علی اکبر بھی جارہے ہیں۔مگر یہ کارنامہ ہے ان کا ۔ ہوائے زمانہ کے خلاف باتیں ہیں۔ دنیا کردار کے ان پہلوؤں پر غو رنہیں کرتی کہ علی اکبر سا بیٹا چلا جائے ، جس کیلئے مولا اپنی جگہ کھڑے نہ رہ سکیں مگر لیلیٰ نے قدم خیمے سے باہر نہیں نکالا۔ ہاں! خیمے کے اندر بھی بیٹھا نہیں گیا، درِ خیمہ پر کھڑی رہیں۔

مصنف: علامہ سید علی نقی نقن اعلی اللہ مقامہ


متعلقہ تحریریں:

فلسفہٴ قربانی (حصّہ دوّم)

فلسفہٴ قربانی

فلسفہٴ خمس

 اسلام نے خمس کا حکم کیوں دیا ھے ؟

فلسفہ خمس دلایل مذھب شیعہ