• صارفین کی تعداد :
  • 2634
  • 4/5/2011
  • تاريخ :

فلسفہٴ قربانی

بسم الله الرحمن الرحیم

تمام سلسلہ انبیاء میں ہمارے پیغمبر سے پہلے سب سے بالا تر ذات حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ کی تھی۔ اس لئے ان کا امتحان دہرا ہوا۔ ذات کے بارے میں بھی امتحان اور اولاد کے بارے میں بھی امتحان۔ ذا ت کے بارے میں امتحان ہوا کہ بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ڈالے گئے۔ اس کا ذکر کل کرچکا۔ اب دوسرا امتحان اولاد کے بارے میں ۔ جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اُس سے ہمیں اس امتحان کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اتنا عظیم امتحان یعنی آگ میں پھینکا جانا اور اس کا گلزار ہوجانا۔ اس کا ذکر صرف دو جگہ ایک ایک اور دو دو آیتوں میں پیش کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں اس کا ذکر اتنے اختصار کے ساتھ ہوا ہے اور یہ امتحان جو اولاد کے بارے میں تھا، اس کا ذکر کئی آیتوں میں مسلسل، شروع سے لے کر آخر تک کی ترتیب کے ساتھ اس کی کڑیاں موجود ہیں۔

 یہ میں بتاؤں گا کہ درمیان کی کڑیاں اکثر سننے والے کی سمجھ پر چھوڑ کی بنظر اختصار ترک کی گئی ہیں ورنہ آغازِ کار اور انجامِ کار اس سب کو قرآن مجید نے نہایت تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سلسلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے:

"وَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْم"۔

"ان کو ہم نے ایک متحمل بیٹے کی بشارت دی"۔

اب اس بشارت کے لفظ سے کچھ لوگوں کو دھوکہ ہورہا ہے اور کچھ اس میں یہود و نصاریٰ کا نظریہ ہمارے نظریے سے مختلف ہے۔ تو چونکہ دوسری جگہ، دو جگہ اس کے علاوہ، جنابِ اسحاق کی بشارت کا ذکر ہے اور تفصیل کے ساتھ ہے۔ تو اب اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہ قربانی کا واقعہ جنابِ اسحاق سے متعلق ہے۔ مسلمان بظاہر تو سبھی مگر تلاش سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے اسلام بھی، مگر شاذو نادر غالباً اسی بشارت کے ذکر سے دھوکہ کھاکے، انہوں نے بھی ایسا قول اختیار کرلیا کہ یہ جنابِ اسحاق سے متعلق ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ میں ان علماء کا نام لے لے کر ذکر کیا ہے۔ ابتدائی صدیوں کے متعلق کہ وہ بھی ایسا ہی کہتے تھے کہ جنابِ اسحاق سے متعلق ہے۔ مگر زیادہ تر علمائے اسلام کا نظریہ اور عام اسلامی تصور یہ ہے کہ یہ جنابِ اسماعیل سے متعلق ہے۔ اب اگر انہی چند علمائے اسلام سے بحث کرتا ہوں جنہوں نے یہ قول اختیار کرلیا تو قرآن مجید کی آیتیں اور ہماری حدیثیں فیصلہ کن ہو سکتی ہیں لیکن یہاں چونکہ سامنے ایک جماعت غیر مسلمین کی ہے، لہٰذا فیصلہ قرآن مجید کی آیتوں سے تو ہو نہیں سکتا کیونکہ وہ قرآن مجید کو مانتے ہی نہیں۔ تو اب ان سے گفتگو میں فیصلہ کن چیز کیا ہو؟ میرے خیال میں دو ذریعے ہیں، ایک انہی کی بائبل اور دوسرے عقلی روایت کیونکہ عقل کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں ہے۔ جو قرائن عقلی کا تقاضا ہو،اس میں مذہب و ملت کا سوال نہیں ہوتا۔

 ان لوگوں کیلئے جو ناواقف ہیں، ان کی واقفیت کیلئے عرض کروں کہ جنابِ اسماعیل پہلے متولد ہوئے تھے اور جنابِ اسحاق بعد میں پیدا ہوئے۔ وہ بڑے بھائی تھے اور یہ چھوٹے بھائی تھے۔ پھر جب بائبل ہی میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے اور پورا اندازہ ہوتا ہے کہ جنابِ اسماعیل تیرہ برس بڑے تھے جنابِ اسحاق سے۔ اب جب یہ حقیقت سامنے آگئی تو اب جس کا دل چاہے، وہ بائبل کو اٹھا کر دیکھ لے۔ وہ تو ہر زبان میں ہے۔ ہم تو جو اور زبان میں ہیں، ان کو ترجمہ قرآن کہتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں ہر زبان والی بائبل اصلی ہے کیونکہ ان کے پاس اصل کوئی اور ہے ہی نہیں۔آپ ان سے جاکر کہئے کہ بائبل دیجئے ، وہ یہی دیں گے ۔آپ کہیں گے کہ یہ تو ترجمہ ہے۔ وہ کہیں گے: جی نہیں۔ یہی ہے اصل بائبل۔ تو وہ ہر ایک کیلئے وہی ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں جو ترجمہ ہوا ہے، وہ اسی بائبل کا ہے۔اس لئے کسی زبان کی بائبل دیکھ لیجئے کہ جس وقت جنابِ ابراہیم نے فرزندکی قربانی کرنے کا تہیہ کیا ، اس وقت کی ان کی ایک مناجات بارگاہِ الٰہی میں بائبل میں درج ہے۔ اس کی مناجات میں وہ کہہ رہے ہیں:

"پروردگار! میں اپنا اکلوتا بیٹا تیری بارگاہ میں نذر کر رہا ہوں"۔

اب ہر صاحب ِعقل سمجھ سکتا ہے کہ چھوٹا بھائی کبھی اکلوتا نہیں ہوتا۔ بڑا بھائی اس وقت تک اکلوتا رہتا ہے جب تک کہ چھوٹا بھائی پیدا نہ ہو۔ یہ اکلوتے کا لفظ قطعی طور پر اس کا ثبوت ہے کہ کہ جنابِ اسماعیل سے متعلق ہے اور جنابِ اسحاق سے متعلق نہیں ہے۔ مگر اب یہ تو ان کے مقابلہ میں فیصلہ بابل سے ہوگیا۔ میں نے کہا تھا کہ عقلی قرائن۔ تو عقلی قرائن یہ ہیں کہ اگر یہ جنابِ اسحاق سے متعلق ہوتا تو اس کی یادگاریں سرزمین شام میں ہوتیں ، اس لئے کہ جنابِ عیسیٰ اور جنابِ موسیٰ سے متعلق مقامات بیت اللحم و غیرہ ، وہ سب موجود ہیں تو انہی میں اس قربانی سے متعلق مقامات ہوتے۔ تو ایک طرف ظرفِ مکاں سرزمین شام ہوتی، دوسرے ان کی دینی رسموں میں کوئی دن اس کی یادگار کا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے۔اس کے متعلقہ مقامات جتنے ہیں، وہ سرزمین مکہ میں ہیں، منیٰ ہے۔ وہ کیا ہے اور وہ عرفات ؟ وہ کیا ہے؟ اور وہ مزدلفہ، وہ کیا ہے؟ یہ تمام مقامات اسی قربانی سے متعلق ہیں اور اس لئے منیٰ ہی میں وہ قربانیاں کی جاتی ہیں جو روزِ عید ِقرباں وہاں ہوتی ہیں۔

مصنف:  علامہ سید علی نقی نقن اعلی اللہ مقامہ


متعلقہ تحریریں:

خمس اھل سنت کی نظر میں

خمس مذھب شیعہ کی نظر میں

ترویج اذان؛ اھل سنت كی نظر میں

فلسفہ نماز شب

حج  کے  متفرق مسائل