ترویج اذان؛ اھل سنت كی نظر میں
ابو داؤود راوی ہیں كہ مجھ سے عباد بن موسیٰ ختلی اور زیاد بن ایوب نے روایت كی ہے (جب كہ ان دونوں میں سے عباد كی روایت زیادہ مكمل ہے) یہ دونوں كھتے ہیں كہ ہم سے ھشیم نے ابو بشیر سے روایت نقل كی ہے كہ زیاد راوی ہیں كہ ہم سے ابو عمیر بن انس نے اور ان سے انصار كے ایك گروہ نے روایت كی ہے، كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو یہ فكر ہوئی كہ نماز كے وقت لوگوں كو كیسے جمع كیا جائے۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا كہ نماز كے وقت ایك پرچم بلند كردیا جائے۔ جب لوگ اس كو دیكهیں گے تو ایك دوسرے كو نماز كے لئے متوجہ كردیں گے۔ آپ كو یہ مشورہ پسند نہیں آیا۔ بعض صحابہ نے كھا كہ سن كھ بجایا جائے۔ آپ كو یہ بات بھی پسند نہیں آئی، اور فرمایا كہ یہ یھودیوں كا طریقۂ كار ہے۔ كچھ لوگوں نے عرض كیا: گھنٹیاں بجائی جائیں۔ آپ نے فرمایا كہ یہ نصاریٰ كی روش ہے۔
اس كے بعد عبد اللہ بن زید (بن عبداللہ) اپنے گھر چلے گئے در حالیكہ ان كو وہی فكر لاحق تھی جو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو تھی۔ پس ان كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی؟
راوی كھتا ہے كہ وہ اگلے دن صبح كو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كے پاس آئے اور عرض كی كہ یا رسول اللہ! میں خواب و بیداری كے عالم میں تھا كہ كوئی میرے پاس آیا اور مجہے اذان سكھائی۔ راوی كھتا ہے كہ عمر بن خطاب، ان سے پہلے خواب میں اذان دیكھ چكے تهے لیكن بیس دن تك انہوں نے كسی كو اس كی خبر نہیں كی، اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم كو بتایا، تو آپ (ص) نے فرمایا كہ تم نے پھلے كیوں نہیں بتایا؟ تو كھنے لگے كہ عبد اللہ بن زید نے مجھ سے پھلے آپ كو بتا دیا لھذا مجہے ذكر كرنے میں شرم محسوس ہوئی۔ اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے بلال! كھڑے ہو جاؤ اور جو تم سے عبد اللہ بن زید كہیں اس كو انجام دو۔ اس طرح بلال (رض) نے اذان دی۔
ابو بشیر كھتے ہیں: مجہے ابو عمیر نے خبر دی ہے كہ انصار یہ گمان كرتے تهے كہ اس دن اگر عبد اللہ بن زید مریض نہ ہوتے تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں كو مؤذن بناتے۔
2) محمد بن منصور طوسی نے یعقوب سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید بن عبداللہ سے روایت نقل كی ہے كہ مجھ سے عبداللہ بن زید نے كھا كہ جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس (گھنٹی) بجانے كا حكم دیا اور فرمایا كہ نماز كے وقت ناقوس بجایا كرو تاكہ لوگ جمع ہوجائیں تو میں نے خواب میں دیكھا كہ ایك شخص ھاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے گرد چكر لگا رہا ہے، میں نے اس سے كھا: اے بندۂ خدا! یہ ناقوس بیچتے ہو؟ اس نے كھا كہ تم اس كا كیا كرو گے؟ میں نے كھا كہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے لئے مطلع كروں گا۔ وہ كہنے لگا: كیا میں اس سے اچھی چیز بتاؤں؟ میں نے كہا: ہاں، بتاؤ۔ اس نے كہا كہ (نماز كے وقت لوگوں كو جمع كرنے كے لئے) یہ كلمات كھا كرو:
"اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ، "
راوی كھتا ہے كہ پھر وہ تھوڑی دیر كے لئے خاموش ھوا اور كھا: جب نماز كے لئے كھڑے ھوجاؤ تو یہ كھو:
" اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ۔ "
جب صبح ہوئی تو میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔
آپ (ص) نے فرمایا: "انشاء اللہ یہ خواب سچا ہے ۔ بلال كے ساتھ جاؤ اور جو كچھ خواب میں دیكھا ہے وہ ان كو سكھاؤ تاكہ وہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے لئے بلائیں۔ كیونكہ وہ تم سے زیادہ خوش لحن ہیں۔" میں بلال كے ساتھ گیا، اور ان كو بتاتا گیا وہ اذان دیتے گئے۔ عمر بن خطاب اپنے گھر میں بیٹهے ہوئے تهے، جیسے ہی انہوں نے اس آواز كو سنا، دوڑے ہوئے آئے۔ وہ اتنی عجلت میں تهے كہ ان كی ردا زمین پر گھسٹ رہی تھی، وہ آئے اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كہا: "اس خدا كی قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كیا ہے، میں نے بھی یہی خواب دیكھا ہے، جو عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فللّٰہ الحمد (تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں۔) 1
حوالہ جات:
1. السنن، ابو داؤد: ۱/ ۱۳۴، حدیث نمبر ۴۹۸ و ۴۹۹
متعلقہ تحریریں:
غیب پر ایمان
اسلام كے اہداف و مقاصد