• صارفین کی تعداد :
  • 4369
  • 8/14/2010
  • تاريخ :

وحی کی حقیقت اور اہمیت (علم و آگاہی اور اس کی تعلیم)

سبحان الله العظیم

علم و آگاہی اور اس کی تعلیم  :

مصر کے معروف مفکر محمد عبدہ وحی کے اصطلاحی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”وقدعرَ فوہ شرعاَ‘ انہ اعلام اللہ تعالیٰ لنبی من انبیائہ بحکم شرعی و نحوہ (1)

شرعی لحاظ سے وحی کی تعریف یوں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء میں سے کسی کو حکم شرعی اور اس طرح کے دیگر احکام سے آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے۔

علوم قرآن کے ماہر محمد عظیم زرقانی نے وحی کی نہایت جامع تعریف کی ہے۔

علم و ہدایت بلکہ ہر قسم کی آگاہی جو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دینا چاہے شریعت میں اسے وحی کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خارق العادت اور مخفی ذریعے سے ہوتا ہے۔ (۲)

المنار کے موئف بھی وحی کو ” انبیاء سے مخصوص علم“ سے تعبیر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔

انبیاء کی جانب وحی الہی انبیاء سے مخصوص علم ہے جو تلاش و کو شش اور کسی غیر کی تعلیم کے بغیر انبیاء کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس علم میں انبیاء کے تفکر اور سوچ و بچار کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ (3)

ایک اور مصری دانشور رائج لطفی اپنے رائے بیان کرتے ہیں:

علی الاصطلاح الشرعی اعلام اللہ تعالیٰ انبیائہ اما بکتاب اوبر سالةِ ملکٍ فی منام او الہام“ (4)

” اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کو آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے اس کے مختلف ذرائع ہیں مکتوب شکل میں‘فرشتے کے ذریعے خواب میں یا دل میں بات ڈالنے سے“

برصغیر کے عالم اسلم جیراجپوری بھی وحی کو علوم الہیہ کا نام دیتے ہیں:

اصطلاح شرع میں وحی ان علوم الہیہ کا نام ہے جو ملاء اعلیٰ سے نبی کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں (5)

غلام احمد پرویز کے بقول وحی کااصطلاحی مفہوم علم الہی ہے:وہ لکھتے ہیں:

” وحی کے اصطلاحی معنی ہیں وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا ہے قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی ہیں” خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم“ (6)

انہوں نے اصطلاحی معنی کو بہت ہی محدود کر دیاہے ان کی نظر میں فقط وہی علم وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست دیا جائے اس سے فرشتے کے ذریعے سے ملنے والی آگاہی وحی کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے کہ باقی آراء کے خلاف بات ہےکیونکہ اکثر محققین نے وحی کے تینوں ذرائع جو سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں بیان ہوئے ہیں‘ کو اصطلاحی معنی میں وحی کا نام دیاہے۔

برصغیر کے ایک اور دانشور نے وحی کو علم الہی کا نام دیا ہے وہ کہتے ہیں:

” شریعت اسلام کی اصطلاح میں وحی خاص اس ذریعہ غیبی کا نام ہے جس کے ذریعہ غوروفکر کسب و نظر اور تجربہ و استدلال کے بغیر خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل و لطف خاص سے کسی نبی کو کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔ “ (7)

ایران کے معاصر محقق ڈاکٹر صالحی کرمانی لکھتے ہیں:

تعلیمی کہ خدا ونداز راھہای کہ بربشر پنہاں است و بطور سریع یعنی برکنار از مقدمات و روش آگاہی ھای بشری بہ پیا مبرمی دھد“ (8)

ان کے بقول وحی وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ مخفی ذریعے سے تیزی کے ساتھ اپنے پیغمبر کو دیتا ہے یہ تعلیم دیگر انسانی ذرائع تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔

ایران کے ایک اور محقق سعیدی روشن بیان کرتے ہیں:

”بنا بر این معنای اصطلاحی وحی در علم کلام عبارت است:

از تفہیم یک سلسلہ حقائق و معارف از طرف خدا وندبہ انسا نہای بر گذیدہ پیا مبران برای ہدایت مردم‘ از راہ ھای دیگری غیراز راھہای عمومی و شناخة شدہ معرفت ہمچون حس و تجربہ وعقل و حدس و شہود عرفانی ‘ تااینکہ آنہاپس از دریافت ‘آن معارف ربہ مردم ابلاغ کنند“ (9)

ان کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے حقائق اور علوم کی تفہیم کا نام ہے یہ تفہیم اور تعلیم جانے پہچانے انسانی ذرائع علم (جیسے حواس خمسہ، تجربہ، عقل، گمان، عرفانی مشاہدات،) سے ماوراء ذریعے سے ہوتی ہے اور ان حقائق اور معارف کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہے۔

پاکستان کے محقق شمس الحق افغانی وحی کا اصطلاحی مفہوم یہ ذکر کرتے ہیں:

” وحی کا شرعی معنی الاعلام بالشرع ‘یعنی صرف شرعی احکام بتلانے کا نام وحی ہے“ (10) یہ وحی انبیاء علیہم الاسلام سے مختص ہے“

برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:

Most commentators and translators treat most of instances of the words in the Quran as technical(31. ہت سے مفسرین اور مترجمین نے قرآن میں اس لفظ کے استعمالات سے اصطلاحی مفہوم مراد لیاہے۔

اصلاحی مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

The verb here translated "reveal" is "awha" which in mhich of the Quran in a technical expressin for this experience of Muhammad

(11)

یعنی وحی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجربے (نبوت)کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کے لیے فقط نہیں آیا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی کے لیے استعمال ہوتا ہے (12)

حوالہ جات:

1. عبدہ محمد: رسالة التوحید، مصر ۱۳۸۵،ص۱۱۱

۲.  زرقانی محمد عظیم: مناھل العرفان فی العلوم القرآن،داراحیاء التراث العربی، بیروت، ص۵۶

3. تفسیر المنار، ج۱ص۲۳۰

4.  القرآن والمستشر قون، ص قاہرہ۱۳۹۳ھ

5.  جیرا جپوری اسلم:تاریخ القرآن ،آواز اشاعت گھر،لاہور ص۱۲

6. ۲۵ پرویز غلام احمد:ختم نبوت اور تحریک احمدیت طلوع اسلام ٹرسٹلاہور۱۹۹۶ءص۲۴

7. وحی الہی ،ص۲۵

8. ۲۷ صالحی کرمانی،محمد رضا ڈاکٹر:درآمدی برعلوم قرآنی،انتشارات جہاد دانشگاہی دانشگاہ تہران،۱۳۶۹ھ،شص۲۵۲

9. تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۷۱۸

10. افغانی شمس الحق ،علوم القرآن مکتبہ الحسن لاہور،ص۹۶،ص۹۸

11.  Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World-p13&14-Edinburg1969

12.  مندرجہ ذیل آیات میں یہ لفظ دیگر انبیاء کی وحی کے لیے آیاہے نساء۱۶۳:اعراف۱۱۷،۱۶۰یونس۲،۸۷:طہٰ۷۷،مومنون۲۷:شعراء۵۲،۶۳:یوسف۱۰۹:نحل۴۳انبیاء۷،۲۵ شوریٰ۳،۵۱:ھود۳۷،۳۶زمر۶۵

 

کتاب کا نام : وحی کی حقیقت اور اہمیّت

مصنّف  : ”سید حسنین عباس گردیزی“

پیشکش :   الحسنین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور امت مسلمہ

تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور امت مسلمہ (حصہ دوم)

تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور امت مسلمہ (حصّہ سوّم )