• صارفین کی تعداد :
  • 3528
  • 7/5/2010
  • تاريخ :

حدیث  ثقلین کی افادیت (حصّہ پنجم)

بسم الله الرحمن الرحیم

عترت جیسا کہ نھایہ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ھے کہ رسول خدا (ص) کے سب سے زیادہ نزدیکی افراد ھیں عترت سے مراد جیسا کہ صاحب نھایہ نے نقل فرمایا ھےصرف وہ افراد ھیں جو رسول اللہ کے منتخب اور نھایت ھی نزدیکی ھیں اور یہ بات یقینی طور سے کھی جاسکتی ھے کہ دوسرے اھل خاندان اس سے خارج ھیں یھاں پر موضوع سے متعلق افراد سارے اھل خاندان نھیں ھیں

اس لئے کہ روایت میں جو صفات بیان کی گئی ھیں کہ (وہ قرآن کے ھم پلہ سمجھنا اور معیار حق و ھدایت جاننا) عموم افراد کو داخل کر کے ممکن نھیں ھے، بلکہ (عترت) سے مراد (متعدد رویات پیش نظر) صرف اھل بیت عليهم السلام ھیں اور یہ وہ افراد ھیں جن کی طھارت کا اعلان قرآن نے کیا ھے یہ پاک اور معصوم رھبران دین ھیں

ابن ابی الحدید کا کھنا ھے رسول اکرم (ص) نے عترت کو لوگوں کے سامنے پہچنوا دیا کہ کون لوگ ھیں! جب آپ نے فرمایا: درحقیقت تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں اس کے بعد فرمایا: (اور عترت جو کہ میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں) اور دوسرے مقام پر اھل بیت کے مسئلہ کو واضح کر دیا جس وقت زیر کساء ان کو جمع کیا اور جب آیہٴ تطھیر نازل ہوئی (1)  آپ نے فرمایا: خدایا، میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں لہٰذ ان سے رجس کو دور رکھ (2)

جر جانی شافعی متوفی ۳۶۵ ھ  نے ابی سعید سے روایت کی ھے کہ آیہٴ تطھیر پانچ افراد کی شان میں نازل ہوئی ھے رسول خدا (ص)، علی عليه السلام، فاطمہ عليه السلام،حسن عليه السلام حسین عليه السلام (3) ذھبی نے تلخیص مستدرک میں ام سلمہ سے روایت کی ھے کہ آیت تطھیر میرے گھر میں نازل ہوئی پس رسول خدا (ص) نے علی عليه السلام، فاطمہ عليه السلام،حسن عليه السلام، حسین عليه السلام کو جمع کر کے فرمایا: خدا یا یہ میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اھل بیت میں سے نھیں ھوں  تو آپ نے فرمایا: تم خیر پر ہو اھل بیت یہ ھیں (جو افراد داخل کساء ھیں) خدا یا میرے اھل خاندان لایق قدر ھیں (4)

اس کے علاوہ بھت سی روایات ھیں جو اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ آیہٴ تطھیر کے مصداق اھل بیت عليهم السلام رسول کے خاص اھل خاندان ھیں

نیز آیہٴ مباھلہ کی تفسیر اھل بیت عليهم السلام کو معین کرتی ھے (5)  مسلم نے اپنے اسناد کے ذریعہ سے روایت کی ھے کہ جب آیہٴ مبا ھلہ نازل ہوئی تو رسول نے علی عليه السلام، فاطمہ عليه السلام حسن، حسین کو طلب کر کے فرمایا: خدایا یہ میرے اھل بیت ھیں (6) اسی بنا پر عبقات الانوار میں نقل ہوا ھے کہ بزرگان اھل سنت نے حدیث ثقلین کی بنا پر اھل بیت کی سر براھی کو قبول کیا ھے

انھوں نے ھی کھا ھے کہ جب حکیم ترمذی نے کھا کہ رسول خدا (ص) کا یہ فرمان کہ ( قرآن وعترت ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر ھم سے ملاقات کریں گے ) یہ اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ صرف یھی افراد ملت مسلمہ کے سر پرست و ولی ھیں کوئی دوسرا نھیں

انھیں سے روایت ھے کہ سبط ابن جوزی نے حدیث ثقلین کو تذکرة الخواص میں (تذکرة الائمة) کے ضمن میں بیان کیا ھے (7)

دوسری گنجی شافعی ھیں جنھوں نے کفایة الطالب میں زید ابن ارقم کی حدیث اور اس کی تفسیر جس میں یہ کھا ھے کہ اھل بیت عليهم السلام وہ ھیں کہ جن پر صدقہ حرام ھے اور آگے کھتے ھیں کہ  حقیقت یہ ھے کہ اھل بیت عليهم السلام کے سلسلے میں زید کی تفسیر صحیح نھیں ھے اس لئے کہ زید کی تفسیر یہ ھے کہ اھل بیت عليهم السلام وہ ھیں کہ جن پر صدقہ بعد رسول حرام ھے اور صدقہ کا حرام ہونا ایک عام کلیہ ھے جو حیات رسول اور بعد حیات رسول دونوں پر صادق آتا ھے اور یہ بات مذکورہ افراد کے لئے مخصوص نھیں ھے کیونکہ فرزندان مطلب پر صدقہ حرام تھا مزیدفرماتے ھیں صحیح یہ ھے کہ اھل بیت عليهم السلام سے مراد علی و فاطمہ وحسن حسین علیھم السلام ھیں جیسا کہ مسلم نے اپنی اسناد کے ساتھ عائشہ سے روایت کی ھے

(ایک صبح رسول باھر آئے اور آپ کے دوش پر سیاہ چادر پڑی ہوئی تھی اس کے بعد حسن ابن علی عليه السلام آئے اور اس کے اندر داخل ہو گئے پھر حسین عليه السلام آئے پھر علی و فاطمہ بالترتیب آئے اور اس کے اندر داخل ہو گئے اس کے بعد رسول نے آیہٴ تطیھر کی تلاوت کی) خدا کا ارادہ صرف یہ ھے کہ پلیدی کو تم اھل بیت عليهم السلام سے دور رکھے اور تم کو مکمل پاک رکھے (8)

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اھل بیت عليهم السلام صرف وہ افراد ھیں کہ جن کو خدا نے اھل بیت کے نام سے یاد کیا ھے اور رسول اکرم (ص) نے ان کو زیر کساء جمع فرمایا: (9)

ان کے علاوہ دوسرے جن افراد نے اس بات کا اعتراف کیا ھے کہ (اھل بیت عليهم السلام صرف مخصوص افراد ھیں) ان کی عبارتوں کو عبقات الانوار میں نقل کیا گیا ھے (10)

اب تک جتنی باتیں نقل کی گئی ھیں یہ ان متواتر روایات سے ھٹ کر ھیں جو اس بات اور موضوع سے متعلق ھیں

انھیں روایات میں سے ابن بابویہ نے عیون اخبار الرضا میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنے آباء سے حسین بن علی عليه السلام سے روایت کی ھے

ابن بابویہ کھتے ھیں کہ امیر الموٴمنین عليه السلام سے رسول اکرم (ص) کے اس قول (میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں جانشین بنا کر جا رھا ھوں قرآن اور میری عترت) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ عترت سے مراد کون لوگ ھیں ؟

آپ نے فرمایا: میں، اور حسن عليه السلام، حسین عليه السلام اور اماموں میں سے نو اور افرا جن کی نویں فرد مھدی اور قائم آل محمد (عجل اللہ فرجہ الشریف) ھیں کتاب خداسے جدا نھیں ھوں گے اور قرآن ان سے جدا نھیں ہوگا یھاں تک کہ حوض کوثر پر ملاقات کریں گے (11) لب لباب یہ ھے کہ عترت سے مراد اھل بیت عليهم السلام ھیں اور یہ افراد پاک، معصوم اور لائق احترام ھیں

حوالہ جات :

1.  سورہٴ احزاب آیت ۳۳

2.  شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۶ صفحہ ۳۷۶، ۳۷۵

3. الکمال فی الرجال جلد ۶ صفحہ ۲۰۸۷ طبع بیروت نقل از احقاق الھق جلد ۲۴ صفحہ ۶۰، ۵۹

4.  احقا ق الحق جلد ۲صفحہ ۵۱۹ از تلخیص مستدرک مستدرک کے ذیل میں طبع ہوئی جلد ۳ صفحہ ۴۱۶ طبع حیدر آباد 

5.  آل عمران آیہ ۶۱

6. صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ۱۸۷۱مسلم تر مذی وابن المنذر اور حاکم اور بیہقی نے اپنی سنن میں سعید ابن ابی وقاص سے روایت کی ھے کہ جب آیہ <قل تعالوا>نازل ہوئی تو رسول نے علی،فاطمہ حسن حسین علیھم السلام کو طلب فر مایا:اور کھا خدا یا یہ میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں احقاق الحق جلد ۳ صفحہ ۵۹، ۵۸

7.  تذکرة الخواص صفحہ ۲۹۰

8. احزاب آیت ۳۳

9. کفایة الطالب صفحہ ۵۴

10. نفحات الازھار جلد۲  صفحہ ۳۴۱، ۳۴۷

11. عیون اخبار الرضا جلد۱ صفحہ۴۶ حدیث ۲۵

                                                                                 تصنیف: سید محسن خرازی


متعلقہ تحریریں:

حدیث  ثقلین کی افادیت (حصّہ چهارم)

حدیث ثقلین سے استدلال