حدیث ثقلین کی افادیت (حصّہ چهارم)
قرآن وعترت کو ثقلین کا نام دینا شاید اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ یہ دونوں قیمتی ترین، عظیم اور نھایت ھی بلند چیزیں ھیں اور لفظ۔(ثقلین) اپنے تمام تر وجود کے ساتھ عظمت قرآن اور مقام رسول کا پیغام دینے والا ھے۔
عبقات الانوار میں نھایہ ابن اثیر سے یہ بات نقل کی گئی ھے کہ۔ ھر صاحب حیثیت جو کہ ایک بلند مقام ومنزلت کا حامل ہو اس کو(ثقل) کھتے ھیں۔ لھٰذا ان دونوں کو ان کی عظمت کے آشکار کرنے کے لئے (ثقل) کے نام سے یاد کیا ھے۔ ا س لئے (ثَقل، ث پر زبر ھے )
آسمانی تمام کتابوں میں سب سے عظیم وبر تر کتاب قرآن مجید ھے اور زندہ معجزہ ھے اور اس کی ضیا بار یاں چکمتے سورج کی مانند ھیں خود اعلان پروردگار ھے کہ باطل کسی بھی راہ سے اس میں نفوذ پیدا نھیں کر سکتا یہ نور ھدایت ھے۔
اور آل محمد عليهم السلام کا بھی کسی صورت میں دوسروں سے موازنہ نھیں کیا جا سکتا۔ (1)
جس طرح سے انبیاء کا دیگر تمام بنی نوع بشر سے موازنہ کرنا غلطی ھے۔ اسی طرح سے آل محمد عليهم السلام کا دوسروں سے موازنہ کرنا ایک ناقابل معافی جرم ھے۔ اس لئے کہ مخلوقات پر حجت خدا اور اس کے علوم کے خزانے ھیں۔
مولای متقیان امیر الموٴمنین عليه السلام نے اھل بیت عليهم السلام کے مقام ومنزلت کو چند فقروں میں واضح کر دیا۔آپ نے فرمایا:وہ ( اھل بیت عليهم السلام مر کز اسرار، ملجا فرمان،منبع علم،مرجع احکام،کتب سماوی کی پنا گاہ اور دین خدا کی محکم دلیل ھیں)ان کی وجہ سے دین خدا کی کمر مضبوط ہوئی۔ یہ (دین خدا کے پشت وپناہ ھیں)ان کی وجہ سے دین کو سکون حاصل ہوا۔۔۔۔
آل محمد عليهم السلام کی کسی بھی شخص کے ساتھ مثال نھیں دی جا سکتی۔ اور وہ لوگ جو دسترخوان آل محمد عليهم السلام کے نمک خوار ھیں کبھی بھی ان کے برابر نھیں ہو سکتے وہ اسا س دین اور ارکان یقین ھیں جو حد سے بڑھ گئے ھیں ان کو چاہئے کہ واپس آئیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو چاہئے کہ وہ ان سے آکر ملحق ہو جائیں۔ ولایت وحکومت ان کا حق ھے، رسول اسلام(ص) کی وصیت ووراثت آل رسول کے پاس ھے۔ اب حق حقدار کے پاس پلٹ آیا ھے اور ایک بار وھیں آپھنچا جھاں سے کو چ کر کے گیا تھا۔ (2)
بعض اوقات کیاجاتا ھے جیسا کہ زمخشری سے نقل ہوا ھے کہ ثقلین میں (ثا) اور (قاف) کے اوپر زبر قرآن و عترت پر اطلاق جن وانس سے ان کی شباھت کی وجہ سے ھے کیونکہ دنیا کا آبا د ہونا اور باقی رھنا جنات انسان کے سبب سے ھے۔ اس طرح سے دین کی سلامتی قرآن و عترت کے ذریعہ ممکن ھے۔ لیکن یہ بات سرے سے غلط ھے کیونکہ کلمہ ٴ ثقلین کا قرآن وعترت پر اطلاق از باب تشبیہ ہونے کے لئے کوئی قرینہ نھیں ھے۔
اس بات کا مکان پایا جاتا ھے کہ (ثقل) سے مراد یہ ہو کہ۔ ان سے متمسک ہونا ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اطاعت بجالانا ان کے حقوق پر توجہ دینا اور قرآن وعترت کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھنا یہ ایک مشکل اور دشوار کام ھے، جیسا کہ بعض اھل لغت ومحدثین نے خیال ظاھر کیا ھے اور حموینی نے اس بارے میں ابی العباس سے روایت کی ھے۔
ابی العباس سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر نے قرآن وعترت کو(ثقلین) کے نام سے کیوں یاد فرمایا۔ابی العباس نے جواب دیا:اس لئے کہ ان سے تمسک کرنا ایک سنگین امر ھے۔ (3)
دوسری روایت میںابی العباس سے نقل ھے۔ اس لئے کہ ان سے متمسک ہونا اوراس پر عمل پیر اہونا ایک ثقیل اور سنگین فعل ھے۔ (4)
عبقات الانوارمیں ازھری سے اور تہذیب اللغہ وغیرہ میں اس مطلب کو ذکر کیاگیا ھے۔ (5) کلمہ ٴ ثقل کے حرف ثا پر زیر اور قاف پر سکون کے ساتھ، ثقل بھاری بھرکم اور وزنی بوجھ کے معنیٰ میں ھے جو کہ اثقال کا واحد ھے لیکن یہ معنیٰ حدیث کے ظاھر کے خلاف ھے۔
ظاھر حدیث کے مناسب یہ ھے کہ ثقل بطور وصف متعلق بحال موصوف ھے پس یہ دونوں کے واسطے اس لحاظ سے وصف ھے کہ قرآن وعترت خدا ورسول کے نزدیک متین و گرانقدر اور صاحب مقام ومنزلت ھیں۔
حولہ جات :
1- اس لئے کہ دوسرے افراد کسی بھی میدان میں ان کے مد مقابل آنے کی سکت نھیں رکھتے ھیں۔
2- نھج البلاغہ خطبہ ۲ ترجمہ فیض الاسلام ۔
3- فرائد السمطین جلد ۲ صفحہ ۱۴۵۔
4- تہذیب اللغة جلد ۹ صفحہ ۲۸۔
5- نفحات الازھار جلد ۲ صفحہ ۲۵۱
متعلقہ تحریریں:
سلسلہٴ سند حدیث ثقلین (حصہ اوّل)
سلسلہٴ سند حدیث ثقلین (حصّہ دوّم)