حسین شناسی یعنی حق پرستی (حصّہ پنجم)
اگر حضرت علی اکبر علیہ السلام کے جملے کا معنی سمجھے ہیں تو آج فلسطینی سمجھے ہیں۔ یزید نے طاقت کے نشے میں آ کر امام علیہ السلام سے کیا کہا تھا؟، یہی کہ آپ میرے سامنے تسلیم ہو جائیں یا مقابلے میں آ جائیں۔ حسینیت کیا ہے؟ مثلی لا یبا۔۔۔ مجھ جیسا اس جیسے کے سامنے تسلیم نہیں ہوسکتا، ہمارے حکمران ایک ٹیلی فون کال پر اپنے سرمائے، عزت، آبرو، شرافت ختم کر دیتے ہیں۔ مگر اسی دنیا میں ایک حسینی پیروکار، حسینی روح رکھنے والا ایک وہ شخص جس نے موت کو مار دیا۔ اس طاقتور ترین یزید زمانہ کو کیا جواب دیا۔ کہا کہ سب سے بڑے دہشت گرد تم خود ہو۔ ہم نہ صرف ساتھ نہیں دیں گے بلکہ تمہارا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یزیدیت کا کام ہے خوفزدہ کرنا۔ اردو میں ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی کو اپنے رعب میں لانا ہو تو خود ا س کو نہ مارو بلکہ اگر اس کے سامنے بلی مار دی جائے تو وہ خوفزدہ ہو جائے گا۔ استکبار نے ہمارے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ افغانستان میں نہ کوئی فوج ہے، نہ کوئی مضبوط حکومت، انہوں نے افغانستان پر طرح طرح کا بارود برسایا۔ اتنا اسلحہ استعمال کیا کہ ایک امریکی افسر کہتا ہے ہمارے پاس اسلحہ کم ہو گیا ہے، ہم کچھ عرصہ اسلحہ بنائیں گے تو عراق پر حملہ کریں گے۔ یہ سارا کام اس لئے کیا کہ گویا انہوں نے ہمارے وطن کے ہمسائے میں بلی مار دی۔ اور ہم وہ لوگ ہیں کہ افغانستان پر حملہ ہونے سے ڈر گئے کہ ان کا یہ حشر ہوا تو ہمارا کیا حشر ہو گا، درحقیقت ہمیں ہی ڈرانا مقصود تھا۔ مقصود یہ تھا کہ ہم نہ بولیں کیونکہ صیہونزم کسی اور پرچم سے نہیں ڈرتا بلکہ صرف پرچم حیدر کرار سے ڈرتا ہے۔ اور اگر شیعہ ڈر جائے تو پھر دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو انہیں روکے اور آپ نے دیکھا کہ یزیدیت نے کسی بھی زمانے میں ھزیمت اٹھائی ہے تو فقط حسینیت اور تشیع کے ہاتھوں اٹھائی ہے۔ لیکن نہ وہ تشیع کہ جس پر لرزہ طاری ہو۔ نہ وہ حسینیت کہ جو دوسروں کا انجام دیکھ کرسہم جائے بلکہ وہ حسینیت جو لاشیں دیکھ کر ڈرے نہیں بلکہ موت کا تعاقب کرے، جنکے آئیڈیل حضرت علی اکبر علیہ السلام ہوں۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام جنہوں نے فرمایا تھا کہ بابا فرق نہیں ہے کہ موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں۔ یزیدیت، صیہونیت اور طاقت کو ایسے تشیع سے خطرہ ہے۔ افغانستان پر حملے سے اتنے ڈرے کہ دلیل یہ دینے لگے کہ جو ان کے ساتھ ہوا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ یہی تو وہ کرنا چاہتے تھے ہمارے ساتھ، امریکہ ہمیں مارنا نہیں چاہتا کیونکہ ہمیں مارنے سے انکو کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہمارے ڈرنے سے ان کو مفاد حاصل ہوتا ہے۔ یعنی ہم زندہ رہیں مگر مردہ بن کے رہیں، چلتی پھرتی لاشیں یزیدیت کے بہت کام آتی ہیں۔ پس حسینیت ڈر اور خوف کا نام نہیں ہے بلکہ حسین علیہ السلام نے تو حالت پیاس میں ٧١ لاشے اٹھا کر بھی جنگ کر کے دوسروں کو ڈرایا، جب پیاسے تھکے ہوئے غمزدہ حسین، افواج یزید کو ڈرا اور بھگا سکتے ہیں تو آج کے حسینی آیا ان سے زیادہ تھکے ہوئے یا غمزدہ ہیں۔ حسینیت ڈرنے کا نام نہیں ہے، حسینیوں سے یزیدیوں کو ڈرنا چاہیئے اور یزیدیوں کو دہشت گردی سے اسلحے سے مارنے دھاڑنے سے نہیں ڈرایا جا سکتا بلکہ حسین شناسی سے یزیدیت ڈرتی ہے، حق پرستی سے یزیدیت ڈرتی ہے۔
تحریر : حجۃ الاسلام والمسلمین سید جواد نقوی
بشکریہ مجلہ امید، قم۔
متعلقہ تحریریں:
حسین شناسی یعنی حق پرستی (حصّہ چهارم)
امام حسین علیہ السلام کی زیارت