پرہيز گاري اور حکومت اميرالمومنين عليہ السلام
ايک دوسري مثال اور آپ کي متضاد صفات کا نمونہ حکومت کے ساتھ ساتھ تقويٰ و پارسائي ہے يہ ايک عجيب چيز ہے؟ ورع و تقويٰ کا کيا مطلب ہے؟ يعني انسان ہر وہ چيز جس سے دين خدا کي مخالفت کي بو آتي ہو اس سے پرہيز کرے اور اسکے قريب نہ جائے۔پھر ادھر حکومت کا کيا ہو گا؟ آخر ممکن ہے کہ حکومت رکھتے ہوئے کوئي پارسا بھي ہو آج جب ہمارے کاندھوں پر اہم ذمہ دارياں ہيں ہميں زيادہ احساس ہے کہ اگر يہ خصوصيات کسي کے اندر موجود ہوں تو وہ کس قدر اہميت کا حامل ہو گا، حکومت ميں رہتے ہوئے صرف اسے کلي قوانين سے سروکار ہوتا ہے اور قانون کا نفاذ اپني جگہ بہت سے فوائد لئے ہوتا ہے اگرچہ عين ممکن ہے اسي قانون کي وجہ سے مملکت کے کسي گوشہ ميں کسي شخص پر ظلم و ستم بھي ہواور ممکن ہے حکومت کے ذمہ دار کي طرف سے خلاف ورزياں بھي ہوں اور پھر نا محدود جزئيات کے ہوتے ہوئے کيسے ممکن ہے کہ وہ (حاکم) ہر شعبہ ميں زہد و پارسائي کا بھي لحاظ رکھ سکے؟ اس لئے بظاہر لگتا ہے کہ تقويٰ حکومت کے ساتھ اکٹھا ہونا نا ممکن سي بات ہے ليکن قربان جائیں امير المومنين عليہ السلام کي ذات پر کہ اپنے وقت کي با اقتدار حکومت کے ساتھ بھي پارسائي و تقويٰ کو يکجا کرتے ہوئے ديکھائي ديتے ہيں جو ايک حيرت انگيز بات نظر آتي ہے۔
وہ اس معاملہ ميں کسي کا پاس و لحاظ نہيں کرتے تھے کہ اگر ان کي نگاہ ميں کوئي کسي منصب کا اہل نہيں ہے تو اسے منصب دے کر بھي بلاتکلف اس عہدے کو واپس لے ليتے ہيں ۔ محمد بن ابي بکر کو حضرت امير عليہ السلام اپنے بيٹے کي طرح سمجھتے تھے اور وہ حضرت علي عليہ السلام کو اپنے مہربان باپ کي حيثيت سے جانتے تھے (آپ ابوبکر کے چھوٹے صاحب زادہ اور علي عليہ السلام کے مخلص شاگرد ہيں آپ کے دامن پر مہر و محبت ميں پروان چڑھے ہيں) مگر مصر کي ولایت دينے کے بعد امير المومنين عليہ السلام نے ايک خط ميں آپ کو لکھا ميں تم کو مصر کي حکومت کے لائق نہيں سمجھتا اس لئے مالک اشتر کو تمہاري جگہ بھيج رہا ہوں۔ اور آپنے ان کو معزول کر ديا اگرچہ انسان ہونے کے ناطے محمد بن ابي بکر کو يہ بات بري بھي لگي مگر حضرت نے اس معاملہ ميں کسي بھي چيز کا لحاظ نہيں کيا يہ ہے آپ کي پارسائي ايسي پارسائي جس کي ضرورت ايک حکومت اور حاکم کو پڑتي ہے و ہ ذات علي عليہ السلام ميں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتي ہے۔
آپ کے زمانے ميں نجاشي نامي ايک شاعر تھا جو امير المومنين عليہ السلام کا مداح اور آپ کے دشمنوں کے خلاف اشعار کہتا تھا۔ ماہ رمضان ميں ايک دن کسي گلي سے گذر رہا تھا کہ ايک برے انسان نے اس کو ور غلايا وہ کہتا ہے کہ آؤ آج ہمارے ساتھ ميں کچھ وقت گذارو مثلاً اس شاعر نے کہا نہيں ميں مسجد جا رہا ہوں قرآن پڑھنے يا نماز پڑھنے بہرحال زبردستي اس شاعر کو اپنے گھر ميں بلا ليا! آخر يہ بھي ايک شاعر ہي تو تھا اس کے فريب ميں آگيا اور اس کے دسترخوان پر روزہ خوري کے بعد شراب بھي پي جاتي تھي اور لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا: اس پر حد جاري کرو اور اس کو اسي٨٠ تازيانے شراب نوشي کي وجہ سے اور دس يا بيس تازيانے دن ميں حرام چيز سے روزہ توڑنے کي بنائ پر ۔ نجاشي نے کہا ميں آپ کا اور آپ کي حکومت کا مداح ہوں اپنے اشعار سے آپ کے دشمنوں کو جواب ديتا ہوں اور آپ مجھے تازيانے مارنے کا حکم دے رہے ہيں؟ فرمايا، کہ يہ ساري باتيں اپني جگہ قابل قبول اور قابل تحسين ہيں مگر ميں حکم خدا کو اپني ذات کي خاطر معطل نہيں کر سکتا، ہر چند ان کے قوم و قبيلہ والوں نے اصرار کيا يا امير المومنين عليہ السلام اس طرح ہماري عزت چلي جائيگي پھر ہم معاشرے ميں سر اٹھانے کے قابل نہيں رہیں گے آپ معاف کر ديجئے مگر حضرت نے فرمايا نہيں ممکن نہيں کہ ميں حد خدا جاري نہ کروں ۔ اس شخص کو لٹايا گيا، اور اسے کوڑے مارے گئے اور وہ راتوں رات آپ کي حکومت سے يہ کہتے ہوئے فرار کر گيا کہ جب آپ کو ميري قدر نہيں معلوم اور آپ کي حکومت ميں روشن خيالوں اور شاعروں کے ساتھ يہ برتاؤ ہے تو ميں وہاں جاؤن گا جہاں ہماري قدر کو پہچانتے ہوں ! اور معاويہ کے دربار ميں اس خيال سے چلا گيا کہ وہ اس کي قدر کو جانتا ہے ! خير جسے اپني خواہشات پر اتنا قابو نہيں کہ وہ علي عليہ السلام کي تابندگي کو اپني خواہشات کے طوفان ميں جھانک کر ديکھ سکے تو اس کي سزا بھي يہي ہے کہ وہ علي عليہ السلام کو چھوڑ کر معاويہ کے پاس چلا جائے حضرت علي عليہ السلام حضرت جانتے تھے کہ يہ شخص ايک نہ ايک دن ان سے جدا ہو جائے گا آج بھي شعراء اور فنکاروں کي اپني جگہ اہميت ہے ليکن اس زمانہ ميں ايک شاعر اس لئے زيادہ اہميت رکھتا تھا کہ وہ افکار و خيالات اور حکومت کي سياست و حکمت عملي کو اپنے شعروں میں لوگوں تک پہنچاتا تھا کيونکہ اس زمانے میں آج کي طرح ٹيلويژن اور ريڈيو نہيں تھے بلکہ يہ شعراء کا کام ہو ا کرتا تھا يہاں ملاحظہ کيجيے کس طرح اميرالمومنين عليہ السلام کي پارسائي ان کي با اقتدار حکومت کے ساتھ ساتھ ہے ذرا ديکھيں تو سہي کيا خوبصورتي و زيبائي سامنے نکھر کر آتي ہے ۔ ہم دنيا اور تاريخ عالم ميں اس قسم کي مثال نہيں تلاش کر سکتے ۔ پيش رو خلفاء ميں بھي بہت سي جگہوں پر صلاحیت نظر آتي ہے ليکن کہاں حضرت اميرعليہ السلام کہاں ديگر لوگ جو کچھ آپ سے پہلے اور آپکے بعد اور آج نظر آرہا ہے گذِشتہ اور آج میں ايک عجيب و غريب فاصلہ نظر آتا ہے اصلاً اميرالمومنين عليہ السلام کي صلاحيت و قابليت ناقابل توصيف ہے۔
اقتباس از شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام حضرت آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي کے مجموعہ خطابات کي روشني ميں
متعلقہ تحریریں:
یوم ولادت حضرت علی علیہ السلام پر قائد انقلاب اسلامی کا ایک خطاب
علی علیہ السلام؛ نومسلم ولندیزي خاتون کی نگاہ میں