حسین شناسی یعنی حق پرستی (حصّہ دوّم)
کربلا میں دو قسم کے کردار ہیں، مثبت اور منفی، یزیدی اور حسینی۔ حق میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے اور باطل میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے، خصوصاً ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے اور آپ لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ یہ جو منبر پر آئے اور اسٹیج پر بیٹھے، اس سے پوچھیں کہ ہمیں بتائیں کہ عمر سعد کون تھا؟ کیسے آ گیا؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ یہ کس خاندان کا فرد ہے؟ ا س کو کیوں چنا گیا؟ شمر کون ہے؟ شمر کیسے بن گیا؟ یہ چیزیں ہمیں معلوم ہونی چاہیئے۔ اس لئے کہ یہ افراد نہیں ہیں طبقے ہیں اور ایسے طبقے ہیں جو ہر زمانے میں موجود ہیں۔ اگر ہمیں 61 ہجری کے عمر سعد کا علم ہو جائے تو ہم اپنے زمانے کے عمر سعد کو پہچان سکتے ہیں۔ اگر ہمیں 61 ہجری کے شمر کا علم ہو جائے تو ہم آج کے شمر کو پہچان سکتے ہیں۔ کربلا میں ایک فرد نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ ایک پوری نسل کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ نسل انبیاء کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ وارث وہ ہوتا ہے کہ جس نے کچھ ارث لیا ہو۔ امام حسین علیہ السلام کس چیز میں وارث تھے؟، آیا انبیاء نے اپنی جائیدادیں، اپنی زمینیں، املاک چھوڑی تھیں امام کیلئے۔ کونسی چیز تھی جو انبیاء علیھم السلام سے ارث ملی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھیں کونسی چیز تھی؟ غور کریں کہ کیا چیز تھی جو امام حسین علیہ السلام نے انبیاء علیھم السلام سے ارث میں لی اور اسی وراثت کی حفاظت کیلئے کربلا آنا پڑا، یعنی ارث انبیاء ختم ہو رہا تھا، لُٹ رہا تھا، ارث انبیاء خطرے میں تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں یزید ہے۔ وہ بھی وارث ہے، وہ بھی تنہا نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی ایک نسل کا وارث آ کے کھڑا ہوا ہے۔ وہ کس کا وارث ہے؟ یزید کس کا وارث ہے؟ معاویہ کا وارث ہے، نہ صرف معاویہ کا وارث ہے بلکہ پورے آل سفیان کا وارث ہے، نہ صرف آل سفیان کا وارث ہے بلکہ آل فرعون کا وارث ہے، آل نمرود کا وارث ہے، آل شداد کا وارث ہے، آل قارون کا وارث ہے، آل قابیل کا وارث ہے، یعنی جتنے ستم کار تاریخ میں گزرے ہیں ان سب کا وارث ہے۔ چونکہ ظالم کو بھی ارث ملتا ہے۔ مظلوم کو بھی ارث ملتا ہے۔ درحقیقت یہ دو وارث تھے۔ دو نسلوں کے وارث، دو سلسلوں کے وارث، ایک وارث نسل انبیاء اور ایک وارث نسل ظلم تھا۔ جس طرح یہ وارث تھے اسی طرح مورث بھی ہیں۔ وارث اسے کہتے ہیں جو کسی سے ارث پائے، کسی سے ارث لے، اور مورث اس کو کہتے ہیں جو کسی کے لیے ارث چھوڑے۔ ان دونوں نے اپنے سے پہلے والوں سے ارث لیا اور اپنے بعد والوں کیلئے چھوڑا۔ یعنی یوں نہیں کہ انہوں نے اپنا ارث وہاں دفن کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنا ارث منتقل کردیا اور یزید نے اپنی وراثت منتقل کردی۔ یعنی جو کچھ فرعون و نمردو سے لیا تھا اس نے وہ کربلا میں لے آیا۔ وہ سب اس نے بعد کیلئے چھوڑا اور اس کی نسل نے اسے سنبھالا۔ امام حسین علیہ السلام کی نسل نے ارثِ حسین کو سنبھالا، پس معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ وراثت موجود ہے اور چلی آ رہی ہے۔ ارث حسین علیہ السلام اور ارث یزید بھی، دونوں کا ترکہ دونوں کی وراثت چلی آ رہی ہے۔ اس میں یہ تشخیص دینا اہم ہے کہ مجھے یہ پتا چل جائے کہ میں کس کا وارث ہوں۔ میں نے کس سے کچھ لیا ہے۔ اب ہم یہ تو کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں یہ توفیق اور نعمت عظمیٰ دی ہے کہ ہم اپنے آپ کو حسینی کہتے ہیں۔
تحریر : حجۃ الاسلام والمسلمین سید جواد نقوی
بشکریہ مجلہ امید، قم۔
متعلقہ تحریریں:
خطبات امام حسین علیہ السلام (کربلا کے نزدیک)
مقامِ منی میں اہلِ بیت کے حق کو بتاتے ہوئےامام حسین (ع) کا خطبہ