شاه چراغ کا جسد جاوداں
شاہ چراغ، سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم
شاہ چراغ، سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم (امامزاده احمد)
یہ اطلاع پا کر پیر عفیف الدین تشریف لائے ۔ غسل فرما کر صاف و معطر لباس زیب تن کیا اور تہہ خانہ میں داخل ہو گئے ۔ چند قدم ہی چلے کہ ایسا نور ظاہر ہوا جس سے اس علاقہ سے اندھیرا غائب ہو گیا اور سب جگہ روشنی ہو گئی ۔ پیر صاحب نہایت ہیبت زدہ حالت میں وسیع تہہ خانہ کے درمیان پہنچے ۔ تہہ خانہ کے عین وسط میں ایک تخت پر سیدنا میر احمدجسدِ اقدس پہ مخمل کی سفید چادر اوڑھے، خون میں لت پت، محو آرام تھے ۔ امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک ہوا اک موئے تن میلا نہ اک تار کفن بگڑا پیر صاحب تخت کے قریب پہنچے تو حضرت سیدنا میر احمد نے کپڑے کے نیچے سے اپنا دایاں ہاتھ باہر نکالا ۔ ہاتھ میں انگشتری تھی ۔ پیر عفیف الدین کو نزدیک آنے کا اشارہ فرمایا۔ پیر عفیف الدین ان کے قریب جا کر تسلیمات بجا لائے اور آنحضرت کے دست و پا چومے ۔ انگشتری ان کی انگلی سے اتار کر واپس ہوئے ۔ باہر تشریف لائے تو درباریوں نے امیر عضدالدولہ کو اطلاع دی ۔ امیر نے پیر صاحب کا استقبال کیا اور بہت ہی عزت کی ۔ امیر نے حالات دریافت کئے ۔ پیر صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا اسی طرح بیان فرما دیا ۔ نقش انگشتری کو پڑھا گیا تو اس پر احمد بن امام موسیٰ کاظم نقش تھا ۔
امیر نے حکم دیا کہ شہر میں نقارہ بجا کر اعلان عام کردیا جائے کہ تمام فقرا ء و مساکین کو بطور شکرانہ کھانا کھلایا جائے گا ۔ قیدیوں کو عام معافی دے دی گئی ۔ امیر نے انگشتری پہننا چاہی تو پیر صاحب نے منع کر تے فرمایا،’’یہ فعل ادب و احترام کے خلاف ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ انگشتری کو خزانے میں رکھا جائے تاکہ خزانے میں برکت ہو اور مخصوص بڑے ایام میں بطور تبرک اس کی زیارت کروائی جائے ۔ امیر عضدالدولہ نے حکم کی تعمیل کرتے انگشتری ایک مرصع صندوق میں رکھ کر خزانچی کے سپرد کر دی ۔ یہ انگشتری طویل عرصہ اس خزانے میں محفوظ رہی اور خاص خاص دنوں میں بطور تبرک اس کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ ایام جنگ میں اس انگشتری کی برکت سے فتح نصیب ہوتی ۔
جاری ہے۔
علمی اخبار ڈاٹ کام