شاہ چراغ
آپ کی شہادت کے چار سو پچاس سال بعد امیر عضد الدولہ، مقرب الدین، مسعود ابن بدر دیلمی (متوفی ۶۶۵ھ ) کے زمانہ تک کسی کے علم میں نہ تھا کہ کہ آپ کا مزار مقدس کہاں ہے ۔ ا یک پھولدار ٹیلے کے گرد و نواح میں کچھ لوگوں کے مکانات تھے ۔ اس ٹیلے کے دامن میں ایک بزرگ خاتون کا جھونپڑ ا تھا ۔ وہ عورت ہر شب جمعہ کچھ حصہ بیت جانے کے بعد اس پھولوں والے ٹیلے پر بہت روشن چراغ دیکھا کرتی جس کی روشنی صبح تک جاری رہتی ۔ اس خاتون نے چند شب جمعہ باقاعدگی سے اس چراغ کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اس روشنی کے عمل میں کچھ فرق نہ آیا ۔ بڑھیا نے سوچا کہ شاید اس ٹیلے پر کسی ولی اللہ کا مقبرہ ہو ؟۔ بہتر ہے کہ اس امر کی اطلاع امیر عضد الدولہ دیلمی کو دی جائے ۔ صبح وہ عورت امیر عضدالدولہ کے محل میں گئی اور ساری کیفیت بیان کی ۔ امیر یہ سن کر حیران رہ گیا ۔ مصاحبین نے کہا: ’’یہ بوڑھی عورت ہے، مختلف خیالات دل میں گزرتے ہیں ۔ بڑھاپے کے سبب اسے نیند نہیں آتی اور نگاہوں میں ایسی چیزیں پھرتی ہیں جن کو حقیقت سمجھتی ہے ‘‘۔ ایک نے کہا ،’’یہ بوڑھی عورت غریب ہے، امیر سے کچھ حاصل کرنے اور سوال کرنے کا ذریعہ تلاش کیا ہے تا کہ اسے کچھ مل سکے ‘‘۔
عضدالدولہ نے ان کی باتیں سن کر کہا ،’’تمہاری باتیں درست نہیں ہیں۔ ایسی باتوں سے دور رہنا بہتر ہے ۔ اس عورت کی باتوں کا میرے دل پہ گہرا اثر ہو چکا ہے، اس لئے کہ اس کا بیان ہے کہ صرف جمعہ کی راتوں کو چراغ نظر آتا ہے ۔ شب جمعہ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ‘‘۔ تسلی کے لئے دوبارہ دریافت کیا ۔ بڑھیا نے کہا ،’’صرف جمعہ کی رات ایسا ہوتا ہے ۔ دوسری راتوں میں نہیں ہوتا ‘‘۔امیر عضدالدولہ نے فیصلہ کیا کہ جمعہ کی رات وہ بڑھیا کے گھر جا کر چراغ کی کیفیت کا خود مشاہدہ کرے گا ۔ شب جمعہ، امیر عضدالدولہ بڑھیا کے گھر پہنچ گیا ۔ محو استراحت ہوا اور بڑھیا سے کہا جب چراغ کی کیفیت ظاہر ہونے لگے تو مجھے بیدار کر دینا تاکہ میں خود اس کا مشاہدہ کروں ۔ رات کا تیسرا پہر گزرا تو اس خاتون نے دیکھا کہ چراغ روشن ہے اور عام دنوں کی نسبت اس کی روشنی بہت زیادہ ہے ۔ بڑھیا بہت خوش ہوئی اور بولی ’’اے شاہ چراغ ‘‘۔
پھر وہ امیر عضد الدولہ کے سرہانے گئی اور بیدار کرتے تین مرتبہ پکاری ’’اے شاہ چراغ ‘‘۔امیر عضدالدولہ نیند سے بیدار ہوا ۔ چراغ پہ نظر پڑی تو حیران ہوا اور اپنے خواص سے کچھ افراد کے ہمراہ ٹیلے پر گیا ۔ ٹیلے پر پہنچا تو انہیں کچھ نظر نہ آیا ۔ نیچے اترے تو چراغ مشعل کی طرح روشن پایا ۔ سات مرتبہ اس عمل کا اعادہ کیا ۔ امیر عضدالدولہ اور اس کے درباریوں میں سے ہر آدمی حیران تھا کہ اس عجیب و غریب چراغ کی حقیقت کیا ہے ؟۔ سب حیران و فکرمند اپنے گھروں کو واپس چل دیئے ۔ اسی سوچ و فکر میں امیر کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب میں ایک بزرگ سید نظر آئے جنہوں نے فرمایا،’’اے عضدالدولہ ! کس خیال میں ہو ؟۔ یہ میرا مدفن ہے اور میں سید احمد بن حضرت امام موسیٰ کاظم ہوں ۔ تسلی رکھو اور کسی معتمد کو میرے مدفن کے پاس بھیجو ۔ میں نے تمہارے لئے ایک انگشتری رکھی ہے ‘‘۔
سیدنا شاہ چراغ سے خوشخبری سن کر عضد الدولہ نیند سے بیدار ہو گیا اور شدت ذوق سے صبح تک جاگتا رہا ۔ صبح امراء و صلحاء، علماء و معززین کو دربار میں جمع کر کے گذشتہ شب کے خواب کا واقعہ بیان کیا اور مشورہ طلب کیا کہ اس بارے میں کیا کرنا چاہئے ؟۔ علماء نے جواب دیا کہ قبر مطہر کا دوبارہ کھولنا حرام ہے ۔ اگر فی الواقع یہ میر احمد کامدفن ہے تو پھر ایسا کرنا امامزادہ کی ہتک عزت کا باعث ہے ۔ تمام لوگ متحیر تھے اور انہیں کچھ نہ سوجھتا تھا کہ کیا کیا جائے ؟۔ اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی نے امیر عضدالدولہ سے کہا کہ اس پہاڑ میں شیراز کی جانب ایک پیر بزرگ ہیں جنہیں عفیف الدین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ طویل مدت سے دنیا جہان سے بے خبر اس پہاڑ میں عبادت الٰہی میں مشغول ہیں ۔ ضرورت کے بغیر کسی سے نہیں ملتے ۔ پیر عفیف الدین کو بلا کر یہ سارا واقعہ ان سے بیان کیا جائے کہ یہ کیا بھید ہے ؟۔
اس شخص کا مشورہ سن کر ارکان دولت اور علمائے اکابر نے کہا کہ یہ بہترین تجویز ہے ۔ ہم میں سے جسے حکم ہو گا انہیں لانے کے لئے حاضر ہیں ۔ امیر عضدالدولہ نے کہا ،’’بہتر ہے کہ ایسے خدا رسیدہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں خود احوال واقعی عرض کروں ۔ اس تجویز کے بعد امیر عضد الدولہ چند خاص درباریوں اور علماء سمیت پیر روشن ضمیر کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ۔ سلام و آداب بجا لانے کے بعد چراغ، خواب اور انگشتری کا سارا واقعہ بیان کیا ۔ جناب پیر عفیف الدین نے فرمایا ،’’یہ خواب سچ ہے ۔ گزشتہ رات میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے ۔ آپ قبر اقدس کھولنے کا حکم دے دیں، اس میں کوئی نقصان نہ ہو گا ۔ دیکھئے کیا ظاہر ہوتا ہے ‘‘۔ یہ سن کر امیر عضدالدولہ باغ باغ ہو گیا ۔ شہر واپس آکر حکم دیا کہ کل اس جگہ کو کھودا جائے ۔
دوسرے روز اس جگہ کو کھودا گیا تو پتھر کی بنی لوح مزار ظاہر ہوئی ۔ امیر کو اطلاع دی گئی ۔ امیر اکابرین شہر، علماء و امراء کے ہمراہ وہاں حاضر ہوا ۔ ان سب نے تختی دیکھی جس پر کوفی رسم الخط میں دو سطریں لکھی تھیں،
’’ اَلْعِزَّۃُلِلّٰہْ ، اَلْسَّیَّدْ مِیْراَحْمَدْ بِنْ مُوْسٰی اَلْکَاظِم ‘‘۔
تختی پر کندہ عبارت اس خواب کے مطابق تھی جو امیر نے دیکھا تھا ۔ سب کو یقین کامل ہو گیا ۔ امیر عضد الدولہ نے حکم دیا کہ قبر شریف پر لکھی ہوئی پتھر کی سل کو ہٹایا جائے ۔ جب پتھر کی سل ہٹائی گئی تو ایک وسیع تہہ خانہ نظر آیا ۔ امیر نے ایک شخص پیر عفیف االدین کی خدمت میں بھیجتے پیغام عرض کیا،’’ اب آپ کی تشریف آور ی کا وقت آن پہنچا ہے ۔ تشریف لائیے کہ حضرت سید میر احمد کی خدمت اقدس میں جا کر انگشتری حاصل کی جا سکے ‘‘۔
جاری ہے۔
علمی اخبار ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
شاہ چراغ، سیدنا امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ کاظم