کسان اور بکرا
آج ہم آپ کو ایک ڈھیٹ بکرے کی کہانی سناتے ہیں۔ جس کو ایسا لگتا تھا کہ کسی کی آواز سنائی ہی نہ دیتی ہو۔
اسے اگر کوئی کہتا کہ آجاؤ میاں دھوپ میں کیوں کھڑے ہو تو وہ اور آگے بڑھ کر سورج کے نیچے کھڑا ہوجاتا تھا۔ اور اگر اسے کوئی کہے کہ بارش تیز ہے چھت کے نیچے آ جاؤ تو وہ چھت کے نیچے آنے کی بجائے، آسمان کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور پھر چھینکیں اور بخار میں ساری رات گزاردیتا۔
ایک دن اسی طرح ڈھیٹ بکرے میاں مرغیوں کے دڑبے کے پاس ایسے کھڑے ہوگئے کہ ان کا آنے جانے کا راستہ بند ہوگیا۔ وہ تو بے چاری پریشان ہوگئیں کیونکہ بکرے میاں کو لاکھ آوازیں دی جائیں، سمجھایا جائے وہ ہر بات کا جواب نہایت خاموش ڈھیٹ پن سے دیتے، ایسا لگتا کہ یا تو ان کے کان نہیں ہیں یا پھر انہیں کسی کی کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی۔
لومڑی، بندر، شیر سب ہی بکرے میاں کی اس ڈھٹائی پر اکثر حیران ہوا کرتے۔ آپس میں کئی بار ان کو سمجھانے کے بارے میں بھی بات کی گئی لیکن بی لومڑی تک نے ہار مان لی جن کی چالاکی کے قصے ہر جگہ مشہور تھے۔
شیر نے بھی کان پکڑے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ اسے سمجھاتا پھروں وہ بھی اکڑ کر چل دیئے۔
مرغی خاصی پریشان تھی۔ بچے بھی خاصا شور کرتے تھے۔ ان کو بھی اپنے کمروں میں آرام کرنے کی عادت تھی اور پھر جب مرغی نے بندر میاں سے مدد چاہی تو انہوں نے اپنی حرکتوں سے بکرے سے اچھل کود کرکے دوستی کرنی چاہی تاکہ اس ڈھیٹ بکرے کو مرغی کے گھر کے سامنے سے ہٹا سکیں کیونکہ مرغی کے بچوں نے چوں چوں کرکے شور مچارکھا تھا لیکن ڈھیٹ بکرے نے جیسے دل میں ٹھان رکھی تھی کہ جہاں کھڑا ہے بس وہیں کھڑا رہے گا۔
ایک روز تو حد ہی ہوگئی۔ مرغی کے بچوں نے شور مچارکھا تھا اور ڈھیٹ بکرے نے اس جگہ کو اپنی خالہ کا گھر سمجھ رکھا تھا کہ چاروں طرف سے چوںچوں کرتے چوزے اس کے پاؤں پر ٹھونگے مار رہے تھے اور وہ ایسا کھڑا تھا جیسے اس سے نہیں بلکہ کسی اور سے چوزے اس کی ڈھٹائی کی شکایت کر رہے ہیں۔
سارا دن کی محنت سے کسان علی احمد تھک کر اپنی چارپائی اٹھائے درخت کے سائے میں آرام کرنے کی نیت سے چلا جا رہا تھا لیکن چوزوں کی چوں چوں سے اس رحم دل کسان کو خیال آیا کہ کسی کو اس کی مدد کی ضرورت ہے لہٰذا اس نے آواز کی سمت قدم بڑھا دیئے۔
قریب جا کر منظر دیکھا تو اسے حیرت بھی ہوئی اور ہنسی بھی آئی کہ ایک مرغی ایک کونے میں افسردہ سی کھڑی ہے اور سات آٹھ چوزے اپنے دڑبے کے سامنے کھڑے بکرے ،کے قدموں میں جھکے کھڑے ہیں۔ بندر میاں اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے درخت پر افسردہ سے بیٹھے ہیں۔ ایک لمحے کھڑے ہوکر ان سب کو دیکھا پھر بندر میاں سے پوچھا کہ کیا پریشانی ہے؟
بندر میاں نے بڑی فکر مندی سے ڈھیٹ بکرے کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ بچے اپنے کمروں میں جانا چاہتے ہیں اور یہ بکرا ہے کہ کسی کی بات سنتا ہی نہیں ان معصوم چوزوں کو بے گھر کرکے نہ جانے اسے کیا مزا آ رہا ہے۔
آپ جا کر درخت پر آرام سے بیٹھو اور داد دینا حضرت انسان کو! علی احمد مسکرا کے آگے بڑھے۔
’’کیوں بکرے میاں ، مرغی کے دروازے پر کھڑے ہو‘‘، انہوں نے تعارف کے لیے بات شروع کی لیکن ڈھیٹ بکرے نے بے نیازی دکھائی ۔
آخر وہ کچھ دیر تو کھڑے سوچتے رہے پھر انہوں نے پہلے تو بکرے میاں کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
’’تم اچھے بکرے لگتے ہو دوسروں کی مدد کرنے والے ،تم یقینا ان بچوں کا خیال رکھنا چاہتے ہو، اب تم یہیں کھڑے رہنا تاکہ بلی ان چوزوں کو ڈرا دھمکا کے خود اپنی دعوت نہ کرلے ، تم ہو گے تو وہ اس طرف نہیں آئے گی۔
آؤ بندر میاں تم بھی آ جاؤ، یہ بچوں کی حفاظت کریں گے یوں ہی رات بھر کھڑے ہوکر، انہوں نے بندر کو بھی آواز لگائی۔
اور پھر سب ہی اپنی اپنی جگہ حیران تھے۔ ڈھیٹ بکرے نے ان سنی کرنے کی عادت سے مجبور ہوکر ایک نظر سب کی طرف دیکھا اور چوزوں کے گھر کا دروازہ چھوڑ کر بڑے مزے میں منہ اٹھائے چل دیئے۔
تحریر : غزالہ رشید ( عالمی اخبار)
متعلقہ تحریریں :
داہ دیہاڑیاں دا پانڈی
پياسا کوا