• صارفین کی تعداد :
  • 4651
  • 7/4/2009
  • تاريخ :

شریک حیات کا انتخاب

شادی بیاہ

آپ كی رفقیہ حیات كیسی ہو ؟

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" وہ عورت تمہاری رفقیہ حیات بننے كے لئے سب سے بہترین ہے جو تمہیں اولاد سے بہرہ مند كرنے والی ، مہربان اور پاك دامن ہو ۔ خاندان میں معزز اور باوقار ہو ، شوہر كے سامنے عاجزی و انكساری كرنے والی ہو، شوہر كے لئے بناؤ سنگھار میں كوئی كوتاہی نہ كرتی ہو ، البتہ دوسروں كے سامنے وہ اس قدر وقار كے ساتھ رہتی ہو كہ وہ اپنے لئے اس كی بے اعتنائی كو محسوس كریں خصوصاً ازدواجی تعلقات میں اپنے شوہر كی خواہشات كا لحاظ كرے اور اس كے جائز اور شرعی مطالبات كے آگے سرتسلیم خم كرے لیكن اس كے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور وقار كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ " 1

میاں بیوی کا  ہم مرتبہ ہونا

شادی كی شرائط میں سے ایك شرط " ہم مرتبہ " ہونا ہے لڑكے اور لڑكی كا ہم مرتبہ ہونا دولت اور مادی حالات كی بنا پر نہیں ہے بلكہ اس سے  مراد دونوں كا پاكدامنی ہونا اور لڑكے كا اس قابل ہونا ہے كہ وہ زندگی كے اخراجات كو پورا كر سكے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

" المومن كفوالمومنة "

" مومن مرد مومن عورت كا كفو ہے " 2

امام صادق (ع) نے فرمایا:

" كفو " سے مراد یہ ہے كہ مرد پاكدامن ہو اور وہ زندگی كے اخراجات پورے كرسكتا ہو ۔" 3

كیا باپ لڑكی كی مرضی كے خلاف اس كی شادی كرسكتا ہے ؟

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے كہ اسلام كی رو سے كوئی باپ اس بات كا مجاز نہیں ہے كہ وہ مادی اسباب اور اپنی مصلحتوں كی بنا پر اپنی بیٹی كی شادی كے لئے اقدام كرے ۔ اگر لڑكی كی كسی خاص شخص كے اچھے كردار كی بنا پر اس كی جانب مائل ہو تو باپ كو یہ حق حاصل نہیں ہے كہ وہ اسے اس شادی سے باز ركھے اور اس كی شادی كسی ایسے شخص سے كرنا چاہے جس كو وہ پسند نہ كرتی ہو ، كیونكہ شادی كے معاملے میں خود لڑكی كی مرضی كو بنیادی شرط كی حیثیت حاصل ہے ۔ اور اس حد تك كہ اگر باپ لڑكی كی كسی سے شادی كر دے اور لڑكی اس شادی سے راضی نہ ہو تو وہ نكاح باطل قرار پائے گا ۔

اس روایت پر غور كیجے

ایك لڑكی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے باپ كی شكایت كی ۔

حضرت ۖ نے دریافت فرمایا كہ:

" تیرے باپ نے تیرے ساتھ كیا كیا ہے ؟"

اس نے كہا كہ:

" میرے باپ نے میری مرضی كے بغیر مجھے اپنے بھتیجے كے عقد میں دے دیا ۔"

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

" اب كہ تیرے باپ نے یہ كام انجام دے دیا ہے تو اسے قبول كرلے اور اس كی مخالفت نہ كر ۔"

لڑكی نے عرض كی:

" میرے باپ نے جہاں میرا رشتہ كیا ہے اس سے مجھے كوئی رغبت نہیں ہے ۔"

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" جب تجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے كہ جس شخص كو بھی تو پسند كرتی ہے اسے اپنے لئے منتخب كرلے ۔"

اس لڑكی نے جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے اس ارشاد كو سنا تو اس نے عرض كی:

" حضور ۖ میں اپنے اسی چچا زاد بھائی كو پسند كرتی ہوں لیكن محض اس لئے كہ باپ اپنی لڑكیوں كی شادی ان كی مرضی كے خلاف نہ كیا كریں ، اس لئے میں ان آپ ۖ كی خدمت میں حاضری دی اور آپ سے اس طرح كے سوال جواب كیے تاكہ میں تمام مسلمان عورتوں كے سامنے یہ اعلان كرسكوں اور لڑكیوں كے باپ یہ جان لیں كہ انھیں یہ اخیتار حاصل نہیں ہے كہ وہ لڑكیوں كی مرضی كے بغیر ایسے اشخاص سے ان كا عقد كردیں جو كو وہ پسند نہ كرتی ہوں ۔" 4

كیا لڑكی كی شادی كے لئے باپ كی مرضی شرط ہے ؟

روایات میں آیا ہے كہ كنواری لڑكی كی شادی كے لئے باپ كی رضا مندی لازمی ہے ۔ البتہ یہ شرط خود لڑكی كے مفاد میں ہے ، كیونكہ بصورت دیگر عین ممكن ہے كہ لڑكی جسے ابھی زندگی كا كوئی تجربہ نہیں ہے دھوكہ كھا جائے اور اس شخص كے دام میں آ جائے جو اس سے اظہار محبت كرتا ہے اور بعد میں یہ چیز اس كے لئے پشیمانی اور حسرت كا سبب بن جائے ۔

باپ كے مرتبے اور احترام كو ملحوظ ركھتے ہوئے بھی بعض روایات میں باپ كی اجازت و مرضی كو ایك شرط قرار دیا گیا ہے ۔

حوالہ جات :

1. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 14 ۔

2. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 43 ۔

3. وسائل الشیعہ جلد 14 ۔ ص 52 ۔

4. مسالك ، ج 1 ۔ ص 16 ۔ از كتاب نكاح ۔

  مجلس مصنفين اداره در راه حق (قم ايران)

ترجمه: محمد خالد فاروقى  (https://www.alhassanain.com  )


متعلقہ تحریریں:

اسلام میں شادی بیاہ

شادی کیلئے مناسب عمر