شہید مظلوم حضرت آیت اللہ بہشتی کی شهادت پر تحریر (حصّہ دوّم)
چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور بقاؤ استحکام میں شہید بہشتی کے کارنامہ کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں :
حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے رفقائے کار کے درمیان شہید بہشتی نے اسلامی انقلاب کی بنیادی ترین خدمات انجام دی ہیں ۔
شہید بہشتی کی شخصیت کی جامعیت اور اسلامی علوم و فنون پر کامل تسلط کے ساتھ ہی عصر حاضر کے تمام سیاسی و نظریاتی مکاتب اور ازموں سے گہری واقفیت نیز مختلف اسلامی اور یورپی زبانوں میں تقریر و تحریر کی صلاحیت نے آپ کو دوستوں حتی بزرگوں کے درمیان بھی ممتاز کردیاتھا ۔ کسی بھی سیاسی فکری محفل و مجلس میں آپ کی موجودگی لوگوں کو ہر ایک سے بے نیاز کردیتی تھی ۔جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تشکیل کے لئے " مجلس خبرگان " کے جلسوں میں شہید بہشتی اپنی زبان کھولتے تھے تو اسلام و قرآن کے تمام مخالفین و معاندین کی زبانیں گنگ رہ جاتی تھیں اور ان کو اپنی کمیوں کے سبب سبکی کا احساس ہوتاتھا ۔ یہی وجہ ہے دو طرح کے لوگ آپ کے وجود سے گبھراتے اور مخالفت و کینہ توزی سے لبریز تھے ، ایک تو منافقین اور مشرق و مغرب سے وابستہ عناصر کا وہ گروہ تھا جو اسلامی انقلاب کی بنیادوں کا ہی مخالف تھا ۔ اور دوسرا حکومت و اقتدار کا بھوکا تنگ نظر علماء اور مفادپرست دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو اپنے سیاسی مقاصد کی راب میں شہید بہشتی کو روڑا سمجھتاتھا اور سختی سے احساس کمتری کا شکار تھا ۔ چنانچہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام کی تاریخ اگر گہری نظروں سے مطالعہ کی جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ اسلامی انقلاب کے مخالف تمام گروہ ، منافقین ہوں یا مشرقی سوشلسٹ اور مغربی لبرل عناصر ہر ایک کی دشمنی اور تہمتوں کا پہلا نشانہ شہید بہشتی کی ذات تھی ۔ مخالفین کو معلوم تھا بہشتی تن تنہا ایک "معاشرہ " ایک ملت اور ایک امت ہیں لہذا پہلے انہوں نے ان کی شخصیت کو قتل اور بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن آیت اللہ بہشتی کو ان کی درایت ، محکم گفتگو ، خلوص خدا پر توکل اور نفس پر اعتماد نے دشمنوں کے مقابل پر میدان میں کامیابی عطا کی اور دشمنوں کے سامنے آپ کو قتل کردینے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا ۔ دشمنان اسلام کی طرف سے جبکہ طرح طرح کی سازشوں کی یلغار تھی وہ دوسرا گروہ کہ جن کی نظر میں شہید بہشتی کا وجود کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا اور انہیں سیاسی میدان میں تنہا کردینے کے درپے تھا ، دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگا اور خطرناک انداز میں ان لوگوں نے اس مرد مجاہد کے خلاف عوام کوفریب دینے والے پروپگنڈے شروع کردئے ۔
انقلاب کے بعد ابتدائی تین برسوں میں شہید بہشتی کو جن حالات سے مقابلہ کرنا پڑاہے اس کی ترجمانی شہید کو ، امام خمینی کی طرف سے دیا گیا " مظلوم " کا خطاب کرتا ہے
جو آیت اللہ بہشتی کی شہادت کے بعد امام خمینی نے دیاتھا ۔ بہرحال ، شہید بہشتی نے تمام مخالفتوں کے باوجود اسلامی انقلاب کی وہ قیمتی خدمات انجام دی ہیں کہ جنہیں اسلامی انقلاب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اوائل انقلاب ہی میں شہید بہشتی نے " آئین " کی تشکیل کا اہتمام نہ کیا ہوتا تو خداہی بہتر جانتاہے کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کا " آئین " کیا اور کیسا ہوتا ۔ ایک ایسا " آئین " وجود میں لانا کہ جس کو عالمی سطح پر مروجہ اصولوں کے برخلاف ، پوری طرح مغرب کی تقلید سے آزاد رکھا جا سکے اور صرف و صرف اسلامی اصول و تعلیمات پر اس طرح استوار ہو کہ ذرہ برابر بھی شرع اسلامی سے مغائرت نہ رکھتاہو بڑاہی مشکل اور پیچیدہ کام تھا ، خصوصا" اسلامی فقہا اور مجتہدین جامع الشرائط کی کونسل " مجلس خبرگان " میں اس کی منظوری اور ہر ایک کو اپنے محکم بیان اور استدلال سے قانع کردینا شہید بہشتی کی علمی اور فقہی منزلت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین راہ اسلام و قران میں شہید ہونے والے دسیوں ہزار افراد کے خون کا عطیہ ہے لیکن مجلس خبرگان کی کوششوں نیز اس کے ناظم کی حیثیت سے شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی کے تدبر اور دور اندیشیوں کا ہی نتیجہ ہے ۔ آئین کی منظوری میں آیت اللہ بہشتی کا فیصلہ کن کردار ، دشمنوں کی مخالفت بڑھ جانے کا سبب بنا ، بنی صدر اور بازرگان کی عبوری حکومت نے اسی لئے مجلس خبرگان کو منحل کرنے کی بھی کوشش کی مگر ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔ انقلاب کے بعد ، امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک اور اہم ذمہ داری شہید بہشتی کو یہ سپرد کی کہ انہیں " عدلیہ" کا سربراہ " دیوان عالی " قرار دے دیا اور شہید نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے عدلیہ کو عزت و وقار عطا کردیا وہ کسی بھی عنوان سے آئین کی خلاف ورزی ، چاہے وہ ملک کی کوئی بھی شخصیت کیوں نہ ہو ، ہرگز قبول نہیں کرتے تھے شہید نے جس مقام اور جس حیثیت سے بھی انقلاب کی خدمت کی ہے پوری فرض شناسی کے ساتھ کام انجام دیا وہ کہا کرتے تھے کہ ہم خدمت کے دلدادہ ہیں اقتدار کے پیاسے نہیں ہیں .
اردو ریڈیو تہران