اعجاز قرآن کے بارے میں تین نظریے (حصّہ سوّم )
یا دیگر سورتوں کو بنانے والے کے جملات ہی ان کی ملامت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں جملات اورکلمات سے ہی ان کی علمی صلاحیت اورفہم ودرک اورقرآن کے ساتھ عداوت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں آپ غور کیجیے ایسے افراد کتنی جہالت اورتاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ سورہ کوثر میں'' انا ''''اور اعطیناک '' کو عین قرآن کے الفاظ میں تکرار کیا ہے جبکہ اسکا دعوی ہے کہ ہم اس کا مثل لائینگے ،اسی طرح ''کوثر ''کی جگہ ''جواہر'' کا کلمۃ لایا ہے ''جواہر'' اور''کوثر ''کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کلمہ'' اعطا ''کے متعلق ''جواہر'' کو قرار دینے اور ''کو ثر'' کو قرار دینے میں ادبی اورفصاحت وبلاغت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا فرق ہے ، پھر'' فصل لربک'' کی جگہ عین الفاظ قرآن کو تکرار کیا ہے جبکہ اس کی پوری کوشش اس کی مانند لانا ہی ہے ،''والنحر''کی جگہ ''جاہر'' ،''انا شانئک ہو الابتر'' کی جگہ ''ولاتعتمد قول ساحر ''لانے سے فقط اپنی ضمیر کی عکاسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،کیونکہ ان دوجملوں کے الفاظ اورمعانی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اور ادبی حوالے سے ان دونوں کے درمیان مقائسہ کرنا ہی غلط ہے ۔!
نیز سورہ حمد کے مقابلے میں خود ساختہ سورہ کو سورہ حمد سے مقایسہ کیجیے کہ کلمہ'' الحمد'' عین وہی لفظ ہے جو قرآن میں آیاہے جب کہ اس کا ہدف اس کی مانند اور مثل لا کر اللہ کے عجز کوثابت کرنا ہے ،''للہ'' کی جگہ'' للرحمن '' لا یا جب کہ'' للرحمن'' اولا قرآن کے ہی الفاظ میں سے ایک ہے ،ثانیا اللہ کا لفظ علم ہے اور لفظ رحمن اس کی صفت ہے کلمہ الحمد کے ساتھ للرحمن لانے اورالحمد کے ساتھ للہ لانے میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اگرکسی کو معلوم نہ ہو تو اس صورت میں اس شخص کو عالم کہلانے کے بجائے اس کا علاج کروانا چاہیے۔
اسی طرح کلمہ'' رب ''کو عین قرآن ہی کا ایک لفظ ہے تکرار کیا ہے اوررب کے بعد عالمین کی جگہ'' اکوان'' کو لا یا ہے'' اکوان'' کلمۃ''کون ''کا جمع ہے ۔
جبکہ' ' عالمین ''کے بارئے میں اختلاف ہے ، یہ کسی مفرد کی جمع نہیں ہے کیونکہ عالم متعدد نہیں ہیں ،البتہ کچھ مفسرین نے فرمایا ہے کہ کلمہ ''عالمین'' ''عالم ''کی جمع ہے'' عالم'' اس کا مفرد ہے اس نظریے کی بناء پر بھی'' اکوان'' اور''عالمین ''کے معنی لغوی اوراصطلاحی میں فرق پایا جاتا ہے ''کون'' افعال عموم میں سے ایک ہے جبکہ ''عالم'' افعال مخصوص میں سے ان کے متعلقات اور قیودات کے اعتبار سے قابل جمع نہیں ہے کیونکہ یہ دو لفظ مترادف نہیں ہیں۔
ثانیا'' اکوان'' جمع مکسر ہے جبکہ عالمین جمع سالم ہے ان کے معانی اور فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے بھی قابل جمع نہیں ہے ۔
قرآن کے مثل لانے کے دعویدار کو چاہیے کہ وہ وہی کمیت اور کیفیت کے ساتھ الفاظ کو لا ئیں جو سورۃ حمد میںموجود ہیں ،اگر کو ئی جمع سالم کی جگہ جمع مکسر کو استعمال کرے یا مفرد کے بدلے میں جمع استعمال کرے یا جمع کی جگہ تثنیہ کو استعمال کرے تو یہ اسکی جہالت کی علامت سمجھا جائے گا ۔
مالک یوم الدین کی جگہ ملک الادیان کو لایا گیا ہے اگر ان دوجملوں کو باہم معنی اورنظم وضبط اورفصاحت وبلاغت کے حوالے سے مقائیسہ کریں تو بخوبی ایسے افراد کی جہالت اور کم علمی کے ساتھ بے انتھائی پستی کا بھی انداز ہ کیا جا سکتا ہے۔
مزید ہمیں ان باتوں کی تحلیل وتفسیر کرتے ہوئے اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔
https://www.alhassanain.com
متعلقہ تحریریں:
قرآن اور انسان کی مادی ومعنوی ضرورتیں
قرآن ایک جاودان الہی معجزہ ہے
زبان قرآن کی شناخت