• صارفین کی تعداد :
  • 3520
  • 6/10/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع ۔ (41) ویں آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

سورہ یوسف  کی اکتالیسویں آيت میں حضرت یوسف (ع) مصر کے قید خانہ میں اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے والے قیدیوں سے مخاطب ہیں :

" یا صاحبی السّجن امّا احدکما فیسقی ربّہ خمرا و امّا الآخر فیصلب فتاکل الطّیر من رّاسہ قضی الامر الّذی فیہ تستفتیان "


( یعنی ) اے مرے جیل کے ساتھیو! جہاں تک ( تمہارے خواب کی تعبیر کی بات ہے ) تم میں سے ایک تو ( آزاد ہو کر) اپنے مربی و مالک کو شراب پلائے گا لیکن دوسرا سولی پر لٹکایا جائے گا ، پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے ، یہ ( اس سلسلے میں ) فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ جس سے متعلق تم دونوں استفسار کررہے تھے ۔

عزیزان محترم ! جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا قیدخانے میں اپنے دو مصاحبوں کی جانب سے عجیب و غریب خوابوں کی تعبیر پوچھے جانے کے جواب میں حضرت یوسف (ع) نے خواب کی تعبیر سے پہلے ، موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدیوں کے سامنے خود اپنا تعارف کرایا اور پھر خدائے واحد و قہار کی دعوت کے ساتھ خود اپنے ساختہ و پرداختہ بے شمار معبودوں کی پرستش سے دوری کی سفارش کی اور اپنا تبلیغی فریضہ انجام دینے کے بعد اب زیر نظر آیت میں حضرت یوسف (ع) نے ان کے خوابوں کی جو تعبیر بیان کی تھی قرآن نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان میں سے ایک ،جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ انگور کا شیرہ بنا رہا ہے ، آزاد کردیا جائے گا اور مثل سابق اپنے ارباب کی محفل میں ساقی کے فرائض انجام دے گا لیکن دوسرا شخص جو شاید نانبائی تھا اور جس نے خواب دیکھا تھا کہ سر پر روٹی کا خوان لئے ہے اور پرندے اسے کھا رہے ہیں ، سولی پر لٹکایا جائے گا اور آخر میں حضرت یوسف (ع) نے یہ بھی کہہ دیا کہ ان دونوں کے بارے یہ فیصلے کئے جا چکے ہیں اور یقینی ہیں اس میں تبدیلی نہیں ہوگی گویا بتا رہے تھے کہ یہ گمان اور نجومی کی باتیں نہیں ہیں بلکہ الہی علم و یقین پر استوار سچی تعبیر ہے ۔

                               اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی 36 ویں آیت ، ارشاد ہوتا ہے :

اور اب سورۂ یوسف کی پینتیسویں آیت خدا فرماتا ہے