• صارفین کی تعداد :
  • 3691
  • 5/30/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع ۔ (39 اور 40) ویں آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی آیات انتالیس اور چالیس ، ارشاد ہوتا ہے :

" یصاحبی السّجن ء ارباب مّتفرّقون خیر ام اللہ الواحد القھّار ، ماتعبدون من دونہ الّا اسماء سمّیتموھا انتم و اباؤکم مّا انزل اللہ بہا من سلطان ان الحکم الّا للہ ، امرالّا تعبدوا الّا ایّاہ ذلک الدّین القیّم و لکنّ اکثر النّاس لایعلمون " 


اے میرے قیدی ساتھیو! آیا مختلف و متفرق کئی خدا بہتر ہیں یا وہ اللہ جو ایک اور زبردست قوتوں کا مالک ہے ، خدا کو چھوڑکر جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو خود تمہارے اور تمہارے باپ دادا کے رکھے ہوئے فرضی ناموں کے سوا کچھ نہیں ہیں ، خداوند عالم نے کوئی دلیل ( ان کے حق میں ) نازل نہیں کی ہے حکم چلانا صرف خدا کا حصہ ہے ، اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو ، یہی محکم و استوار دین ہے لیکن لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی ۔

جناب یوسف (ع) اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی جیل کے ساتھیوں کو خطاب کرکے انہیں مزيد غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں، تم خود فیصلہ کرو کہ ذات و صفات کے اعتبار سے متفرق و مختلف اور عدد کے اعتبار سے طرح طرح کے بے شمار معبود بہتر ہیں یا اس اللہ کا ماننا بہتر ہے جو ایک اور اکیلا لیکن ہر شے پر غالب و قہار ہے در اصل مشرکوں نے ہر چیز کے لئے ایک معبود اور پروردگار بنا رکھے تھے اور " رب النوع " کی پرستش کرتے تھے ؛ کہتے تھے کہ یہ خدا پانی برساتا ہے وہ ہوا چلاتا ہے فلاں رزق کا ذمہ دار ہے تو فلاں کی خوشنودی دولت و ثروت میں اضافے کا باعث بنتی ہے کوئی موت کا تو کوئی حیات کا مالک ہے ، قرآن کہتا ہے یہ تمام عنوانات خود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان کو دے رکھے ہیں جن کے کوئی کام نہیں ہیں صرف نام ہی نام ہیں ،خدا نے ان کے لئے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے یعنی ان کا کوئی خارجی وجود نہیں پایا جاتا صرف لوگوں نے نام دے رکھے ہیں نہ عقل ان کا وجود مانتی نہ ہی خدا کی طرف سے نازل شدہ کتابوں سے ان کا وجود ثابت کیا جا سکتا ۔جبکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور پوری کائنات میں صرف اسی کا حکم چلتا ہے اہل ایمان اسی کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کی جائے ، یہی وہ دین ہے جو محکم و استوار ہے اگرچہ لوگوں کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی ۔

اور اب زير بحث(37۔40) آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

جو شخص کفر و شرک کی تاریکیوں سے دور رہتا ہے خدا علم و حکمت کے نور سے اس کے قلب کو منور کردیتا ہے اور وہ ان حقائق سے بھی آگاہ ہوجاتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتے ۔

انسان کو ہاتھ آجانے والے موقعوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے چنانچہ حضرت یوسف (ع) نے قید خانے میں اپنی توحیدی تبلیغ سے جیل کے قیدیوں کو فائدہ پہنچایا ، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب حقہ کے پاسبان علماء اور شہدا نے بھی ظالم حکام کے ہاتھوں جیل میں ڈال دئے جانے کے سبب قیدخانوں میں علمی اور ثقافتی فرائض انجام دئے ہیں ، حتی اپنے خون سے کتابیں لکھی ہیں اور دین حق کی حفاظت کی ہے ۔

اگر باپ دادا دین حق پر ہوں اور دین کی راہ میں قابل قدر خدمات انجام دی ہوں تو یقینا" باپ دادا کی پیروی قابل افتخار ہے اور خدا کی نگاہ میں بھی یہ کام پسندیدہ ہے جیسا کہ حضرت یوسف (ع) نے حضرت یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام کی پیروی پر افتخار کیا ہے ۔

انبیاء (ع) کا وجود اور دین حق کی پیروی بھی خدا کا ایک لطف و احسان ہے اور ایک ایسی عظيم نعمت ہے کہ اس کا شکر ادا نہ کرنے والوں کو اللہ نے " ناشکرا" قرار دیا ہے یہی نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کی نافرمانی اور دین حق سے انحراف کو بھی اللہ نے کفران نعمت سے تعبیر کیا ہے ۔

ایمان و اعتقاد سے تعلق رکھنے والے مسائل ، سوال اور موازنہ کی صورت میں لوگوں کے سامنے بیان کرنا تبلیغ دین کا ایک مقبول اور پسندیدہ طریقہ ہے البتہ لب و لہجہ نرم ہونا چاہئے تاکہ مخالفین کے دل میں ضد اور دشمنی پیدا نہ ہو وہ حق کو سمجھیں اور قبول کرسکیں ۔

اپنے اعتقادات کو دلیل و برہان پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اندھی تقلید اور رسم و رواج کی صورت میں ایک کام کرتے رہنا اسلام کی نظر میں ہرگز ممدوح نہیں ہے ۔

                               اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

اور اب سورۂ یوسف کی پینتیسویں آیت خدا فرماتا ہے

سورہ یوسف  ۔ع ۔ (34) ویں  آیت کی تفسیر