• صارفین کی تعداد :
  • 3331
  • 5/4/2009
  • تاريخ :

مغربی دنیا کا اخلاق (حصّہ سوّم )

مغرب کے حال کی زندگی

ہر مذہب و ملت میں بزرگان قوم کی روش اور مربیوں کے افکار و عقائد سے شخصی طرز فکرمتاثرہوا کرتا ہے ۔ اب وہ طبقہ جو خود معاشرے کے رہبری کا ضامن ہوتا ہے اس کی طرف سے اس قسم کے مفاسد کی نشرواشاعت ہر چیز سے زیادہ اخلاق عمومی کو برباد کرتا ہے اور چونکہ ہرفرد تقاضائے فطرت کے ماتحت نفسانی شہوات کی طرف مائل ہوتا ہے ۔

اس لئے مربیوں کی بری تعلیم ہر قسم کے اخلاقی دستور سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور اس معاشرے کے افراد کے ذہن و فکر پر زیادہ اثر ڈالتی ہے جو بھی اس قسم کے مکتب بے راہ و روی میں تعلیم پائے گا اور ایسے معاشرے میں پرورش پائے گا وہ قہری طور پر اپنے اندر بے حساب آزادی کا احساس کرے گا ۔ عفت و عصمت اس کی نظر میں ایک بے معنی چیز ہوگی ، اور اس کے افکار کی جولانی دائرہ شہوات نفسانی سے آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔

رذائل اخلاقی کی جانب داری کرنے والے در حقیقت ایک ایسی نسل گنہگار کی پرورش کرنے کے ذمہ دار ہیں جو نسل آستانہ خواہش نفسانی پر کمزور و نحیف ثابت ہو اور عقل و وجدان ان کے کندھے پرجو بوجھ ڈالے اس کو آسانی سے اٹھا نہ سکے۔

کنیڈی نے 1962 ء میں اعلان کیا :

امریکہ کا مستقبل تکلیف دہ ہے ۔ کیوں کہ بے راہ روی اور شہوتوں میں ڈوبے جوان اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے سکنے پر قادر نہ ہوں گے مثلا فوج میں لئے جانے والے سات افراد میں چھ نالائق ہوں گےکیونکہ شہوات نفسانی میں غرق ہونے کی وجہ سے ان کی بدنی اور روحی قوت ختم ہوچکی ہوگی ۔

خروش چوف نے بھی کنیڈی کی طرح 1962 ء میں اعلان کیا :

روس کا مستقبل خطرے میں ہے اور مستقبل کے نوجوانوں سے کوئی امید وابستہ کرنا دانش مندی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ زنجیر بے راہ روی میں گرفتار ہیں ۔

کتنے تعجب کی بات ہے کہ علم وصنعت کے اس دور ترقی میں نسل جوان کی مشکلات کے سامنے متمدن دنیا نے گھٹنے ٹیک دئے ۔ اور صنعتی تمدن کے پیٹ سے روزانہ ایک نہ ایک ایسی چیز پیدا ہوتی رہی ہے جو خستگی روح کا باعث ہے ۔

کبھی فوجیوں کا دستہ غیر موزوں و نامنظم حرکات کرتا ہوا ظاہر ہوتا ہے اور جوانوں کے گروہ در گروہ ان کے پیچھے لگ لیتے ہیں توکبھی ہپی متمدن مرکزوں میں گھاس کی طرح اگنے لگتےہیں اورخشک مادی متمدن کے خلاف انقلاب برپا کرتے ہيں اخلاقی و معنوی قدرو قیمت کو موہوم و بے اساس سمجمھتے ہوئے معقول زندگی کا مذاق اڑاتے ہیں ۔اور پھر زمانے کے تمدن سے روگرداں ہوکر قیدوبند کی زنجیروں کو توڑکر اس طرح حیران و سرگردان ہو جاتے ہیں کہ اپنے لئے کوئی روحی پناہ نہیں پاتے ۔

اسی قسم کی اجتماعی خرابیاں اور عوامل انحراف سے تاثر اور مظاہر فساد  و آلودگی کے مقابلے میں ان کا احساس اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ موجودہ تمدن نے معاشرے کے افراد کو ایک مشین کے پرزے بنادئے ہیں ۔ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ انسان کے فطری و روحی تقاضوں کو قانع کرسکیں اور عواطف انسانی کا صحیح جواب دے سکیں ۔

خود کشی کی کثرت بھی انھیں اسباب سے ہوتی ہے ۔ لوگ اگر چہ مادی زندگی کے لحاظ سے آسودہ حال ہیں لیکن خودکشی کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔

پولیس کے بیان کے مطابق 1976ء میں مغربی جرمنی کے دس ہزار سے زیادہ افراد نے خودکشی کی اور اسی سال چھ ہزار سے زیادہ مردوں نے اور سات ہزار سے زیادہ عورتوں نے جرمنی میں خودکشی کرنی چاہی جن کو بچا لیا گیا ۔

(مجلہ تندرست )

معاشرہ فرانس جو جدید تمدن میں ہرجگہ سے آگے ہے وہاں ہر سال 35 ہزار افراد خود کشی کرتےہیں ۔

امریکی جوانوں میں نشہ آور چیزوں کا استعمال اس کثرت سے ہوگیا ہے کہ آخری ایام میں نیویارک کی پولیس نے ایسے 38 جوانوں کی لاش تلاش کی جن کی عمر 16 سے 35 سال کے اندر تھی اور جن کی موت کا سبب نشہ آور چیزوں کا استعمال تھا ان میں بعض مرنے والے جوان تو ایسے تھے کہ مرنے سے پہلے اپنے بازؤں سے سرینج بھی نہ نکال پائے تھے ۔ نشہ آور چیزوں میں ان لوگوں کے نزدیک ہیروئن کو پہلا درجہ حاصل ہے ، اس وقت صرف نیویارک میں ایک لاکھ آدمی ہیروئن کا عادی ہے بایں معنی کہ ہر اسی افراد میں ایک شخص افیون کاعادی ہے ۔

مالداروں میں ہنر پیشہ لوگ سب سے زیادہ ان چیزوں کے عادی ہیں نیویارک کے ایک حکیم نے کہا کہ امریکہ کےمشہور ترین ہنر پیشہ افراد میں ایک شخص 24 گھنٹے میں دس مرتبہ نشہ آور دوا کے استعمال کا عادی ہے اور ایک مرتبہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا کی قیمت ساٹھ ڈالر ہے ۔ وہ حکیم مزید کہتا ہے کہ بہت سے مشہور لوگ جو سکتہ قلبی کے شکار ہوکر مرجاتے ہیں ان میں سے اکثر اس نشہ آور دوا کے عادی ہوتے ہیں۔(اطلاعات شمارہ 13015 )

امریکہ جیسے متمدن ملک میں ہرپچیس منٹ پر ایک  عظیم جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور ہر 24 گھنٹے میں 3 قتل 5 زنا بالجبر30 بڑی چوریاں اور 3000 ہزار چھوٹی چوریاں ہوتی ہیں ۔

عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اسی امریکہ میں تباہ کاروں کے مبارزہ اور قانون اختصاص کے اجراء کے لئے چار میلیون ڈالر تک دئے گئے ہیں ۔ نیویارک میں تباہ کاری کرنے سے پہلے پہلے سو میلیون ڈالر تک بطور پیشگی دئے جاتے ہیں ۔ (روح بشر صفحہ 32 )

یہ وہ روش ہے جس کی طرف خود باختہ لوگ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور اس قسم کی لیڈری پر فخر کرتے ہیں

بشکریہ مبلغ ڈاٹ نیٹ


متعلقہ تحریریں:

دوسروں کی تقلید یا اپنی ثقافت پر فخر کریں

علم و ایمان کا باہمی رابطہ

اسلام میں طلاق (حصّہ چہارم )