• صارفین کی تعداد :
  • 5135
  • 4/22/2009
  • تاريخ :

پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) (حصّہ دوّم )

ذہنی دباؤ

ذہنی دباؤ کیا ہے ؟

(Stress )

ہر انسان مختلف مواقع پر ذہنی دباؤ کو محسوس کرتا ہے۔ اسٹریس یا دباؤ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے؛انسان کا اپنے اندر بے چینی ، دباؤ یا بوجھ محسوس کرنا۔

زندگی کے وہ واقعات، حالات یا پریشانیاں جو  انسان پر ذہنی دباؤ ڈالتی ہیں مثلاً معاشی فکریں، روزگار کی فکر یا اس کا دباؤ ، تعلقات کا بوجھ یا کم آمدنی میں گزارہ کرنے کا بوجھ اور فکر، انہیں بھی اسٹریس کہا جاتا ہے۔

اکثر لوگ ان سارے حالات و واقعات کا کبھی نہ کبھی شکار رہتے ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ ڈپریشن ، پریشانی ، تھکاوٹ اور سر درد کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بعض جسمانی مسائل بھی زیادہ شدید ہو جاتے ہیں مثلاً السر کا درد زیادہ ہونا ، پیٹ کا درد اور جلد کے مسائل بڑھ جانا۔ یہ مسائل یقیناً پریشان کن ہوتے ہیں مگر ان کو پی ٹی ایس ڈی نہیں کہا جا سکتا۔ 

پی ٹی ایس ڈی کیوں ہو جاتا ہے ؟

اس کی یقینی وجہ کا تعین ابھی تک نہیں کیا جا سکا لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان وجوہات کی بنا پہ پی ٹی ایس ڈی ہو سکتا ہے۔

نفسیاتی  وجوہات :

جو واقعات بہت زیادہ خوفناک ہوتے ہیں ان کی یاد ذہن میں بہت واضح اور پختہ ہوتی ہے۔  اگرچہ ان کو یاد کرنا اذیت دیتا ہے مگر یہ یادیں انسان کو ان واقعات کو سمجھنے اور ان  کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

ان کی بار بار آنے والی یادیں انسان کو ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ان کے دوبارہ ہونے کی صورت میں ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں بھی مدد دیتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ ان واقعات کے بارے میں ان تکلیف دہ احساسات کے بغیر بھی سوچ سکے۔

ان االمناک سانحات کے بارے میں سوچنا تکلیف دہ اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ ان کے بارے میں سوچنے سے  گریز کرنا اور احساسات کا کسی حد تک شل ہوجانا ان کی بار بار یاد آنے کی شدت کو اس حد تک کم  کر دیتا ہے کہ انسان ان کو کم از کم برداشت کر سکے۔

ہر وقت چوکنا رہنے کا احساس کسی حادثے کے دوبارہ ہونے کی صورت میں اپنے دفاع میں مدد دیتا ہے۔ اسکی ایک مثال زلزلے کا شکار ہونے والوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ زلزلوں کے دوسرے یا تیسرے جھٹکوں کی صورت میں یہ احساس لوگوں کو جلد محفوظ مقامات پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ اسکے علاوہ کسی ہنگامی صورت کے حالات میں یہی احساس امدادی کارروائیاں جاری رکھنے میں بھی کام آتا ہے۔

لیکن تمام زندگی انسان ان حادثات کو اس طرح بار بار یاد نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ان کو صرف بوقت ضرورت ہی یاد کرنا چاہتا ہے مثلاً جب کبھی اس سے مماثل صورت حال کا سامنا ہو تو ۔

جسمانی وجوہات :

 ایڈرینلین (Adrenaline) ایک کیمیکل ہے جو ہمارا جسم ذہنی یا جسمانی دباؤ کی صورت میں زیادہ مقدار میں پیدا کرتا ہے۔ یہ ہمیں ناگہانی حالات سے نمٹنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ جب اسٹریس کم ہو جائے تو خون میں اس کی مقدار  کم ہو کر روزمرہ کی حدود میں چلی جانی چاہیئے۔ پی ٹی ایس ڈی میں شاید ان واقعات کا بار بار یاد آنا اس کیمیکل کی مقدار کو کم نہیں ہونے دیتا جسکی وجہ سے انسان چڑ چڑا اور بے سکون محسوس کرتا ہے اور اس کی  نیند بھی  خراب ہوتی ہے۔

 ہپو کیمپس (Hippocampus)دماغ کا ایک جزو ہے جو یاداشت کو پراسیس کرنے میں مدد دیتا ہے.  اسٹریس میں جو ہارمون خون میں زیادہ مقدار میں شامل ہو جاتے ہیں جیسے کہ ایڈرینلین وہ ہپوکیمپس کو صحیح طور پہ کام کرنے سے روکتے ہیں۔ اس وجہ سے اس سانحے کی یادیں بار بار ذہن میں آتی رہتی ہیں اور کم ہی نہیں ہوتیں کیونکہ ہپو کیمپس ان یادوں پہ صحیح طرح سے کام ہی نہیں کر پاتا۔ جب اسٹریس کم ہو جائے اور ایڈرینلین خون میں اپنی عام مقدار پہ واپس آ جائے تو   ہپو کیمپس یادوں کو پراسیس کر پاتا ہے اور اس سانحے کی بار بار آنے والی تکلیف دہ یادیں اور ڈراؤنے خواب ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ 

ہمیں یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ  ہم کسی المناک سانحے کے بعد ذہنی طور پہ اس سے صحتیاب ہو چکے ہیں ؟

جب آپ ؛

  ●  اس سانحے کے بارے میں بہت زیادہ پریشان ہوئے بغیر سوچ سکیں

  ● ہر وقت خطرے میں گھرا نہیں محسوس کر رہے ہوں

  ● اس حادثے کے بارے میں وقت بے وقت نہیں سوچ رہےہوں ۔

بہت دفعہ پی ٹی ایس ڈی کی تشخیص جلد کیوں نہیں ہو پاتی ؟

 ہم میں سے اکثر لوگ  تکلیف دہ واقعات اور احساسات کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔

ہم ان احساسات کے بارے میں اس خوف سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں کمزور اور ذہنی مریض نہ سمجھنے لگیں۔

صحت کے شعبے سے منسلک افراد بھی ہماری طرح انسان ہیں اور ان کے لئے بھی ان دہشت ناک واقعات کے بارے میں بات کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

 پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا افراد اسکی دوسری علامات مثلاً نیند نہ آنا، سر درد، ڈپریشن، چڑچڑاپن، منشیات کا استعمال یا تعلقات میں خرابی کے بارے میں بات کرنا زیادہ آسان محسوس کرتے ہیں۔

   مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہوں؟

کیا آپ کبھی کسی ایسے المناک سانحے یا بے انتہا تکلیف دہ واقع کا  شکار ہوئے ہیں جنکا ذکر اوپر کتابچہ میں کیا گیا ہے؟

اگر ہاں  تو کیا آپ نے کبھی مندرجہ ذیل علامات میں سے کچھ علامات کو محسوس کیا ہے؟

اس سانحے کی یادیں بار بار آپ کے ذہن میں آنا، ایسا بار بار محسوس ہونا کہ جیسے وہ حادثہ دوبارہ ہو رہا ہو، یا

اس کے بارے میں بھیانک خواب آنا

ان چیزوں سے گریز کرنا جو حادثے کی یاد دلائیں

احساسات کا شل یا سن ہونا

چڑچڑاپن اور ہر وقت  شدید گھبراہٹ کا شکار محسوس کرنا جس کی وجہ آپ کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو

منشیات کا استعمال شروع کر دینا، شراب نوشی کثرت سے کرنا، کھانا زیادہ کھانے لگنا

اپنے احساسات اور جذبات پر قابو محسوس نہ کرنا

دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے لگنا

اپنے آپ کو جسمانی طور پر بہت مصروف رکھنے کی کوشش کرنا تاکہ جذبات پر توجہ مرکوز نہ ہو

اپنا دھیان مختلف مصروفیات کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کرنا

اداس اور تھکا تھکا محسوس کرنا

اگر یہ علامات اس سانحے کے چھ ہفتوں کے اندر شروع ہوئی تھیں اور وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں تو زیادہ امید ہے کہ یہ محض حادثے کا قدرتی ردعمل تھا ۔

ہاں ! اگر حادثے کے چھ  ہفتے گزرنے کے بعد بھی یہ علامات برقرار رہیں اور بہتر ہوتی محسوس نہ ہوں تو اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کر لیں۔

بچے اور پی ٹی ایس ڈی

پی ٹی ایس ڈی کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ چھوٹے  بچوں کو اکثر حادثات کے بعد ان کے بارے میں ڈراؤنے  خواب آتے ہیں جن میں کبھی کبھی بھوت اور اس طرح کی ڈراؤنی چیزیں بھی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے کھیل میں بھی ان سانحات کو دہراتے ہیں  مثلاً کار حادثے کے بعد یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے اپنے کھلونوں سے اس حادثے کے منظر کو باربار دہراتے رہتے ہیں۔ وہ ان کھیلوں کو  جن میں پہلے انہیں مزا آّتا تھا چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں اس بات پر یقین نہیں رہتا کہ وہ بڑے ہونے تک زندہ رہیں گے۔ وہ اکثر  پیٹ یا سر درد کی  شکایت کرتے ہیں۔

اگر کسی کو پی ٹی ایس ڈی ہو جائے تو کن باتوں سے فائدہ ہوتا ہے؟

آپ ان مندرجہ ذیل طریقوں سے اپنی مدد کر سکتے ہیں؛

زندگی کی مصروفیات کو حسب معمول جاری رکھنے کی کوشش کریں۔

معمول کے فرائض سر انجام دینے کی کوشش کریں

حادثے کے بارے میں کسی اچھے دوست سے بات کریں

پر سکون رہنے کی ورزشیں سیکھنے اور باقاعدگی سے کرنے کی کوشش کریں

اپنی ملازمت پر جاتے رہنے کی کوشش کریں

ورزش باقاعدگی سے کریں اور کھانا وقت پر کھائیں

اس جگہ دوبارہ جانے کی کوشش کریں جہاں حادثہ ہوا تھا

اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں

گاڑی چلاتے ہوئے احتیاط کریں کیونکہ آپ کی توجہ اور قوت انہماک پر حا دثے کا اثر ہو سکتا ہے

عام معمولات میں بھی احتیاط کریں کیونکہ توجہ کی کمی کسی نئے حادثے کا سبب بن سکتی ہے

بہتر  ہونے کی امید رکھیں، مایوس نہ ہوں

اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں

ان چیزوں سے اجتناب کریں

اپنے آپ کو قصور وار گردانتے رہنا ۔ پی ٹی ایس ڈی کمزوری کی نشانی نہیں ہے ،یہ کسی شدید سانحے کے بعد کسی بھی شخص کو لا حق ہو سکتی ہے۔

اپنے احساسات اور جذبات کو بہت دبائے رکھنے کی کوشش کرنا۔ اگر آپ پی ٹی ایس ڈی کی علامات محسوس کر رہے ہیں تو انہیں اپنے آپ تک نہ رکھیں کیونکہ علاج سے عام طور سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔

اس سانحے کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرنا

ان علامات کے فوراً ختم ہو جانے کی توقع کرنا۔ یہ علامات ختم ہونے میں کچھ عرصہ لگ سکتا ہے۔

اپنے آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینا۔ اپنے آپ کو تھوڑی رعایت دیں کیونکہ حادثے کے بعد معمول میں آنے میں وقت لگے گا۔

لوگوں سے ملنے سے گریز کرنا

کافی، سگریٹ یا شراب کا بکثرت استعمال 

حد سے زیادہ تھکا دینے والے معمولات میں خود کو مصروف کرنے کی کوشش کرنا۔

کھانے میں بے قاعدگی

چھٹیوں میں تنہا وقت گزارنا

یہ چیزیں بہتر ہونے میں رکاوٹ ڈال سکتی ہیں

دوسرے لوگ

 آپ کو اس حادثے کے بارے میں بات کرنے سے منع کرسکتے ہیں

آپ سے ملنے سے گریز کر سکتے ہیں

آپ پر بات بے بات غصہ کر سکتے ہیں

آپ کو کمزور  سمجھ  سکتے ہیں

آپ کو قصوروار ٹھرا سکتے ہیں

یہ لوگ ان مندرجہ بالا طریقوں سے اپنے آپ کو ان خوفناک واقعات  کے بارے میں سوچنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ کار آپکے لئے مفید نہیں ہے کیونکہ  اس طرح آپ اپنے مشاہدے اور احساسات کےبارے میں بات نہیں کر  سکیں گے جو آپ کو ان علامات پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔

ان المناک سانحات کے بارے میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان بھیانک واقعات کے بعد انسان پر ایک بے خودی یا نیم بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے ارد گرد کی صورتحال غیر معمولی یا غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ اگر انسان حادثے کو لفظوں میں بیان نہ کر سکے ، اسے صحیح طریقے سے یاد نہ کر سکے یا اسے سمجھ نہ سکے تو پھر اس حادثے کی یادوں سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔

 

کتابچہ رائل کالج آف سائکائٹرسٹس، یو کے
ترجمہ: ڈاکٹر روحی افشاں، ڈاکٹر مسعود خان
مدیر:  ڈاکٹر سید احمر

 


متعلقہ تحریریں:

کیمیائی اجزاء خواتین میں بانجھ پن کا سبب بن سکتے ہیں

پاکستان میں ہاتھوں سے پھیلنے والی بیماریاں

ذیابطیس كیا ہے

ذیابطیس نوع اول