• صارفین کی تعداد :
  • 6115
  • 3/8/2009
  • تاريخ :

کابینہ مشن پلان پر ایک نظر

پاکستان زنده باد

جولائی 1945 میں شملہ کانفرنس کے ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت ہند نے ہندوستان کی دونوں بڑی جماعتوں کی نمائندہ حیثیت جاننے کیلئے دسمبر 1945 میں مرکزی اسمبلی اور مارچ 1946 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے ۔ مرکز میں مسلم لیگ نے تمام مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً نوے فی صد نشستوں پر مسلم لیگی اُمیدوار کامیاب ہوئے لہذا مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت وضاحت سے سامنے آئی لیکن تاج برطانیہ کی حکومت پھر بھی زبردست ہندو اکثریت کی حمایت سے وحدتِ ہندوستان کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رہنے پر ہی مُصر رہی اور اِس مشن کی تکمیل کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے مضبوط ترین تین رکنی وزارتی مشن ہندوستان بھیجا گیا۔ مشن کے تینوں ارکان سٹیفورڈ کرپس، پیتھک لارنس اور اے۔ وی۔ الیگژنڈر، کانگریسی لیڈروں نہرو اور گاندہی سے خصوصی مذاکرات میں مصروف رہے ۔

مہاتما گاندہی

مہاتما گاندہی نے کابینہ مشن پلان کے سامنے آنے کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کی صدارت سے سبکدوش کرا دیا اور جواہر لال نہرو کو صدارت پر لایا گیا لیکن اِسکے باوجود مولانا آزاد مختلف مواقع پر صوبوں کی گروپ بندی کے حوالے سے خصوصاً سٹیفورڈ کرپس سے گفت و شنید میں مصروف رہے جبکہ کابینہ مشن نے آمد کے بعد ہندوستان میں مبینہ فرقہ وارانہ جنگ کو روکنے کے پس منظر میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے مطالبہ کو رد کر دیا ۔ 16 مئی 1946 کو کابینہ مشن پلان کے تحت اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی وحدت کو قائم رکھا جائے گا لیکن صوبوں کو residuary powers دینے کیساتھ ساتھ خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے سوا تمام محکمے بھی دینے کا اعلان کیا گیا۔ صوبوں کو A, B, C, گروپوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ لارڈ پیتھک لارنس نے 17 مئی کو ایک اہم پریس کافرنس میں کہا کہ اے گروپ کے سوا دیگر صوبے دس سال تک یونین میں رہنے کے بعد اپنی دستوری حیثیت پر نظر ثانی کر سکیں گے یعنی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر خودمختار ملک بن سکیں گے ۔

اے گروپ میں ہندو اکثریتی صوبے شامل تھے ، بی گروپ میں پنجاب ، صوبہ سرحد ، صوبہ سندھ اور برٹش بلوچستان جبکہ سی گروپ میں بنگال اور آسام شامل تھے ۔

حیرت ہے کہ جس دن کابینہ مشن پلان کا اعلان کیا گیا ، اُس دن کانگریس لیڈر شپ بشمول جواہر لال ، ہندوئوں اور سکھوں نے جشن منایا اور ہندو اکثریتی صوبوں میں پاکستان کیخلاف زبردست نعرے بازی کی گئی ۔ قائداعظم جانتے تھے کہ مسلمانان ہند ایک بڑے امتحان سے گذر رہے ہیں جبکہ کابینہ مشن کے اراکین کی بھی متفقہ رائے یہی تھی کہ ہندوستان میں دونوں پُرجوش جماعتوں ہندو کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات ملک کو فرقہ وارانہ جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ قائداعظم کیلئے یہ ایک بہت ہی مشکل فیصلہ تھا ۔ اُنہوں نے 6 جون 1946 کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس طلب کیا جس میں تمام ملک سے مسلم لیگی نمائندوں نے شرکت کی ۔ دو دن تک غور و فکر اور مشاورت کے بعد قائداعظم نے ایک پُرجوش تقریر میں پلان کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا معروضی جائزہ پیش کیا اور مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کیلئے مستقبل کے حوالے سے ایک وسیع تر پاکستان کو اُبھرتا ہوا محسوس کرتے ہوئے کابینہ مشن پلان کے حق میں قرارداد منظور کرنے کی درخواست کی ۔

 

مولانا حسرت موہانی اور دیگر چند ممبران نے قرارداد کیخلاف ووٹ دیاجبکہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ۔ قرارداد کی منظوری کو بھی قائداعظم نے ایک جامع شرط کے تابع رکھا جس کیمطابق پلان میں شامل فریقوں ( ہندو کانگریس اور انگریز حکمرانوں ) کی جانب سے منصوبے میں گڑ بڑ کی صورت میں مسلم لیگ اپنی حکمت عملی میں ترمیم و نظر ثانی کر سکتی ہے یا رویہ کو بدل سکے گی ۔

کابینہ مشن نے اے بی سی گروپنگ کے حوالے سے قائداعظم کے نقطہء نظر کی تائید کی لیکن نہرو نے 20جولائی 1946 کو صوبوں کی گروپنگ اور دس برس کے بعد صوبوں کی آزادی کے حق کو ماننے سے انکار کر دیا ، لہذا قائداعظم نے 25 جولائی 1946 کو مسلم لیگ کونسل کا اجلاس دوبارہ بلایا اور کابینہ مشن پلان کی منظوری کی درخواست واپس لے لی ۔

 

حقائق یہی کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کابینہ مشن پلان میں ایک وسیع تر پاکستان کو اُبھرتا ہوا دیکھا تھا جسے جواہر لال نہرو اور ہندو کانگریس برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ نہرو نے دس برس کے بعد و سیع تر پاکستان دینے کے بجائے ایک سال کے اندر ہی سندھ بلوچستان اور صوبہ سرحد کیساتھ ساتھ تقسیم شدہ پنجاب ، بنگال اور آسام دینے پر ہی اکتفا کیا ۔ حقائق یہی ہیں کہ کابینہ مشن پلان کے حوالے سے قائداعظم کی اپنائی ہوئی اسٹریٹجی کام کر گئی اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پاکستان مل گیا ۔

 

حقیقت یہی ہے کہ محترمہ عائشہ جلال اور چند بھارتی اور مغربی انشوروں نے کابینہ مشن پلان کے حوالے سے نظریہء پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، بلخصوص سقوط ڈھاکہ کے بعد جس انداز میں متحدہ ہندوستان کے فلسفے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ، اُسے میں قابل مذمت ہی سمجھتا ہوں کیونکہ تحریک پاکستان کے آخری دور میں برطانوی حکومت ہند کی جانب سے کبھی متحدہ ہندوستان اور کبھی کابینہ مشن پلان کے حوالے سے ریاستی دبائو استعمال کرنے کے باوجود قائداعظم نے برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت سے ہی کابینہ مشن پلان کی تائید اِسی لئے کی تھی کہ اِس اسکیم میں بھی دس برس کے بعد ایک وسیع تر پاکستان کی آزادی پنہاں تھی لیکن جواہر لال نہرو نے مستقبل میں کابینہ مشن پلان کے منفی اثرات ہندو اکثریت پر پڑنے کے باعث اِس اسکیم سے پہلو تہی اختیار کی اور تحریک پاکستان کا یہ عارضی باب اپنے منتقی انجام کو پہنچا ۔

 

 اِسی طرح بانیان پاکستان کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے میں چوہدری رحمت علی کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اِسی طرح حصول پاکستان کیلئے تقسیم ہند سے قبل بانیانِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے والی چند دیگر جماعتوں سے منسلک کچھ دانشور بھی قائداعظم کی ذاتِ گرامی کو ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اِن دانشوروں کی تحقیق کو پاکستان مخالف حلقوں میں تو اہمیت حاصل ہو سکتی ہے ۔

 

بشکریہ روزنامہ نواۓ وقت