عرفات ميں وقوف كرنا
يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جس كى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسط سے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_
مسئلہ 328_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_
مسئلہ 329_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_
مسئلہ 330_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى (نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہرين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جا سكے_
مسئلہ 331_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميں سے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہو جاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كر دے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كر دے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كر دے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _
مسئلہ 332_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اور ايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگرچہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _
مسئلہ 333_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گار ہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _
تحریر: حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
مترجم: معارف اسلام پبلشرز