• صارفین کی تعداد :
  • 3467
  • 11/9/2008
  • تاريخ :

حَجة الاسلام اور نيابتى حج كے بارے ميں

مکہ

مسا لہ 1 ۔  جو شخص حج كى استطاعت ركھتا ہو اس پر اصل شريعت كے اعتبار سے پورى عمر ميں صرف ايك مرتبہ حج واجب ہوتا ہے اور اسے ""حجة الاسلام"" كہا جاتا ہے۔

 

مسا لہ 2_ حجة الاسلام كا وجوب فورى ہے يعنى جس سال استطاعت حاصل ہوجائے اسى سال حج پر جانا واجب ہے اور كسى عذر كے بغير مؤخر كرنا جائز نہيں ہے اور اگر اسے مؤخر كرے تو گناہ گار ہے اور حج اس كے ذمے ثابت ہوجائيگا اور اسے آئندہ سال انجام دينا واجب ہے و على ہذا القياس۔

 

مسا لہ3_ اگر استطاعت والے سال حج كو انجام دينا بعض مقدمات پر موقوف ہو۔ جيسے سفر كرنا اور حج كے وسائل و اسباب كو مہيا كرنا۔  تو اس پر واجب ہے كہ ان مقدمات كو حاصل كرنے كيلئے اس طرح مبادرت سے كام لے كہ اسے اسى سال حج كو پا لينے كا اطمينان ہو۔

 

اور اگر اس ميں كوتاہى كرے اور حج كو بجا نہ لائے تو گناہ گار ہے اور حج اسكے ذمے ميں ثابت اور مستقر ہو جائيگا اور اس پر اسے بجا لانا واجب ہے اگرچہ استطاعت باقى نہ رہے۔

حجة الاسلام كے وجوب كے شرائط

حجة الاسلام مندرجہ ذيل شرائط كے ساتھ واجب ہوتا ہے:

پہلى شرط :

عقل پس مجنون پر حج واجب نہيں ہوتا_

دوسرى شرط:

بلوغ پس نابالغ پر حج واجب نہيں ہوتا اگر چہ وہ بلوغ كے قريب ہو اور اگر نابالغ بچہ حج بجا لائے تو اگرچہ اس كا حج صحيح ہے ليكن يہ حجة الاسلام سے كافى نہيں ہے_

 

مسا لہ 4: اگر بچہ احرام باندھ كر مشعر ميں وقوف كو بالغ ہونے كى حالت ميں پالے اور حج كى استطاعت بھى ركھتا ہو تو اس كا يہ حج حجة الاسلام سے كافى ہے_

 

مسا لہ5: وہ بچہ جواحرام باندھے ہوئے ہے اگر محرمات ( جو كام احرام كى حالت ميں حرام ہيں ) ميں سے كسى كام كا ارتكاب كرے تو اگر وہ كام شكار ہو تو اس كا كفارہ اسكے ولى پر ہوگا اور اسكے علاوہ ديگر كفارات تو ظاہر يہ ہے كہ وہ نہ تو ولى پر واجب ہيں اور نہ ہى بچے كے مال ميں -

 

مسا لہ 6: بچے كے حج ميں قربانى كى قيمت اسكے ولى پر ہے_

 

مسا لہ 7: واجب حج ميں شوہر كى اجازت شرط نہيں ہے پس بيوى پر حج  واجب ہے اگر چہ شوہر سفر حج پر راضى نہ ہو _

 

مسا لہ 8_ مستطيع شخص سے حجة الاسلام كے صحيح ہونے ميں والدين كى اجازت شرط نہيں ہے ۔

 

تيسرى شرط :

استطاعت اور يہ مندرجہ ذيل امور پر مشتمل ہے۔

الف : مالى استطاعت

ب : جسمانى استطاعت

ج : سربى استطاعت (راستے كا با امن اور كھلا ہونا)

د : زمانى استطاعت

ہر ايك كى تفصيل

الف : مالى استطاعت :

يہ متعدد امور پر مشتمل ہے۔

1_ زاد و راحلہ

2_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات

3_ ضروريات زندگي

4_ رجوع الى الكفاية

مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں انكى تفصيل بيان كرتے ہيں:

1_ زاد و راحلہ

زاد سے مراد ہر وہ شے ہے كہ جسكى سفر ميں ضرورت ہوتى ہے جيسے كھانے پينے كى چيزيں اور اس سفر كى ديگر ضروريات اور راحلہ سے مراد ايسى سوارى ہے كہ جسكے ذريعے سفر طے كيا جا سكے _

 

مسا لہ 9_ جس شخص كے پاس نہ زاد و راحلہ ہے اور نہ انہيں حاصل كرنے كيلئے رقم اس پر حج واجب نہيں ہے اگرچہ وہ كما كر يا كسى اور ذريعے سے انہيں حاصل كر سكتا ہو _

 

مسا لہ 10_ اگر پلٹنے كا ارادہ ركھتا ہو تو شرط ہے كہ اسكے پاس اپنے وطن يا كسى دوسرى منزل مقصود تك واپس پلٹنے كے اخراجات ہوں_

مکہ

مسا لہ 11_ اگر اسكے پاس حج كے اخراجات نہ ہوں ليكن اس نے حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقداركے برابر كسى شخص سے قرض واپس لينا ہو اورقرض حال ہو يا اسكى ادائيگى كا وقت آ چكا ہو اور مقروض مالدار ہو اور قرض خواہ كيلئے قرض كا مطالبہ كرنے ميں كوئي حرج بھى نہ ہو تو قرض كا مطالبہ كرنا واجب ہے۔

 

مسا لہ 12_ اگر عورت كا مہر اسكے شوہر كے ذمے ميں ہو اور وہ اسكے حج كے اخراجات كيلئے كافى ہو تو اگر شوہر تنگدست ہو تو يہ اس سے مہر كا مطالبہ نہيں كر سكتى اور مستطيع بھى نہيں ہو گى ليكن اگر شوہر مالدار ہے اور مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان بھى نہ ہو تو اس پر مہر كا مطالبہ كرنا واجب ہے تاكہ اسكے ساتھ حج كر سكے ليكن اگر مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان ہو مثلاً يہ لڑائي جھگڑے اور طلاق تك منتج ہو تو عورت پر مطالبہ كرنا واجب نہيں ہے اور عورت مستطيع بھى نہيں ہو گى _

 

مسا لہ 13_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات نہيں ہيں ليكن وہ قرض ليكر اسے آسانى سے ادا كر سكتا ہو تو اس پر واجب نہيں ہے كہ وہ قرض ليكر اپنے آپ كو مستطيع بنائے ليكن اگر قرض لے لے تو اس پر حج واجب ہو جائيگا۔

 

مسا لہ 14_ جو شخص مقروض ہے اور اسكے پاس حج كے اخراجات سے اتنا اضافى مال نہ ہو كہ جس سے وہ اپنا قرض ادا كر سكے تو اگر قرض كى ادائيگى كا وقت مخصوص ہو اور اسے اطمينان ہے كہ وہ اس وقت اپنے قرض كو ادا كرنے پر قادر ہوگا تو اس پر واجب ہے كہ انہيں اخراجات كے ساتھ حج بجا لائے _

اور يہى حكم ہے اگر قرض كى ادائيگى كا وقت آچكا ہو ليكن قرض خواہ اسے مؤخر كرنے پر راضى ہو اور مقروض كو اطمينان ہو كہ جب قرض خواہ مطالبہ كريگا اس وقت يہ قرض كى ادائيگى پر قادر ہوگا اور مذكورہ دو صورتوں كے علاوہ اس پر حج واجب نہيں ہے۔

 

مسئلہ 15_ جس شخص كو شادى كرنے كى ضرورت ہے اس طرح كہ اگر شادى نہ كرے تو اسے مشقت يا حرج كا سامنا ہوگا اور اس كيلئے شادى كرنا ممكن بھى ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہوگا مگر يہ كہ اس كے پاس حج كے اخراجات كے علاوہ شادى كرنے كا انتظام بھى ہو ۔

 

مسئلہ 16_ اگر استطاعت والے سال ميں اسے سفر حج كيلئے سوارى نہ ملتى ہو مگر اسكى رائج اجرت سے زيادہ كے ساتھ تو اگر يہ شخص زائد مال دينے پر قادر ہو اور يہ اس كے حق ميں زيادتى بھى نہ ہو تو اس پر اس زائد مال كا دينا واجب ہے تاكہ حج بجا لا سكے پس صرف مہنگائي اور كرائے كا بڑھ جانا استطاعت كيلئے مضر نہيں ہے _ ليكن اگر يہ زائد مال كے دينے پر قادر نہيں ہے يا يہ اسكے حق ميں زيادتى ہو تو واجب نہيں ہے اور يہ مستطيع بھى نہيں ہوگا اور يہى حكم ہے سفر حج كى ديگر ضروريات كے خريدنے يا انكے كرائے پر لينے كا نيز يہى حكم ہے اگر يہ حج كے اخراجات كيلئے كوئي چيز بيچنا چاہتا ہے ليكن اسے خريدار صرف وہ ملتا ہے جو اسے اسكى رائج قيمت سے كم پر خريد تا ہے _

 

مسئلہ 17_ اگر كوئي شخص يہ سمجھتا ہو كہ اگر وہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے ساتھ حج پر جانا چاہے تو وہ اس طرح حج كيلئے استطاعت نہيں ركھتا جيسے ديگر لوگ حج بجا لاتے ہيں ليكن اسے احتمال ہے كہ تلاش و جستجو كرنے سے اسے ايسا راستہ مل جائيگا كہ يہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے ساتھ حج كيلئے مستطيع ہو جائيگا تو اس پر تلاش و جستجو كرنا واجب نہيں ہے كيونكہ استطاعت كا معيار يہ ہے كہ يہ حج كيلئے اسى طرح استطاعت ركھتا ہوجو ديگر لوگوں كيلئے متعارف ہے ۔

ہاں ظاہر يہ ہے كہ اگر اسے اپنے مستطيع ہونے ميں شك ہو اور جاننا چاہتا ہو كہ استطاعت ہے يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ اپنى مالى حيثيت كے بارے ميں جستجو كرے

 

2_  سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات

مسئلہ18_ مالى استطاعت ميں يہ شرط ہے كہ يہ حج سے واپس آنے تك اپنے اہل و عيال كے اخراجات ركھتا ہو

 

مسئلہ19_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

 

3_ ضروريات زندگي:

مسئلہ 20_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيں اس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم وغيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مکہ

مسئلہ 21_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائش كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے ۔

 

مسئلہ 22_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہو ليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرنا تو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے۔

 

مسلئہ 23_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم وغيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

 

مسئلہ 24_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت وغيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _

 

مسئلہ 25_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تاكہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگرچہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو۔

 

مسئلہ 26_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_

4_ رجوع الى الكفاية:

مسئلہ 27_ مالى استطاعت ميں "" رجوع الى الكفاية"" شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى ) اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان وغيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_

 

مسئلہ 28_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ""رجوع الى الكفاية"" وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى۔

 

مسئلہ 29_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ""حج بجا لا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ""تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں "" رجوع الى الكفايہ "" شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے۔

 

ليكن اگر اسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كر لے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_

مسئلہ 30_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہو جائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے۔

مکہ

مسئلہ 31_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل

مسئلہ 32_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _

 

مسئلہ 33_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _

 

مسئلہ 34_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے وغيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ""رجوع الى الكفاية"" تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہو جائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _

 

مسئلہ 35_ اگر كسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجا لانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _

 

مسئلہ 36_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجا لائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجا لائے _

 

مسئلہ 37_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كر لے اگرچہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تاكہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجا لانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصد كيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

 

ب۔ جسمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جا نہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے۔

 

مسئلہ 38_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كر لے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجا لانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _

 

مسئلہ 39_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيار ہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھوا دے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے _

 

د_ زمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _

 

ولى امر مسلمين و مرجع تقليد حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)

مترجم: معارف اسلام پبلشرز