قرآن کيا ہے؟
خالق کائنات نے اپنے کلام کے تعارف کے ليے حسب ذيل الفاظ استعمال فرمائے ہيں :
اس کے علاوہ اور بھى تعبيريں ہيں ،ليکن يہاںصرف يہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان تعبيرات کى روشنى ميں قرآن کريم کى واقعى حيثيت کيا قرار پاتي ہے -
اہل قلم اس مقدس کلام کوکبھى کتاب سے تعبيرکرتے ہيں اورکبھى اسلام کے آئين ودستورسے - ليکن کتاب سے ان کى مراد عموما وہ قرآنى تعبير نہيں ہوتى جو "" الم ذلک الکتاب"" ميں پائى جاتى ہے ،اس ليے کہ قرآنى تعبيرکے لحاظ سے کتاب کو باقى دوسرے اوصاف سے متصف کيا جا سکتا ہے ليکن ہمارى تعبيرکے لحاظ سے کتاب ميں وہ تمام خصوصيات نہيں پائى جاتى ہيں جوقرآن کريم ميں موجود ہيں -
ديکھنا يہى ہے کہ قرآن مجيد کو دوسري تصانيف کى طرح تصنيف يا دساتيرکى طرح دستورکہہ سکتے ہيں يا نہيں ؟ يہاں اس بات سے بحث نہيں ہے کہ قرآن تصنيف ہے تواس کا مصنف کون ہے، خدا ہے يا اس کا رسول ؟ اوراگرقرآن تاليف ہے تو اس کا مؤلف کون ہے،خالق کائنات رسول اکرم ياخلفاء اسلام ؟
يہاں توصرف يہ ظاہرکرنا ہے کہ قرآن نہ دنيا کى کتابوں کے طرز کى کتاب ہے اورنہ دنيا کے دساتيرکے قسم کا کوئى دستور-
اس کا انداز ترتيب اسى طرح ساري کائنات سے منفرد وممتاز ہے جس طرح اس کے اصول ومعارف - وہ نہ اصول ومعارف کے اعتبار سے دنيا کى کسى کتاب سے ہم رنگ ہے اور نہ سليقہ - ترتيب کے اعتبارسے کسى تصنيف وتاليف سے ہم آہنگ-
اوردرحقيقت يہى بات اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن رسول اکرم کا کلام نہيں ہے -اس ليے کہ دنيا کا کوئى انسان کتنى ہى بلند کتاب کيوں نہ تصنيف کرے سليقہ- تصنيف کو ہاتھ سے نہيں دے سکتا سليقہ- تصنيف ہى سے مصنف کى عظمت کا اندازہ ہوتا ہے اورقرآن کريم ميں وہ اندازہى نہيں ہے جوتصنيف کا ہوا کرتا ہے لہذا نہ اسے تصنيف کہہ سکتے ہيں اور نہ اس کے انداز وسليقہ کوکسي بشرکى طرف منسوب کرسکتے ہيں-
تصنيف کى سب سے پہلى خصوصيات يہ ہوتى ہے کہ مصنف اپنے ذہن ميں ايک خاکہ تيار کرتا ہے اس کے بعد مطالب کوچند حصوں پرتقسيم کرتا ہے، تقسيم کے اعتبار سے باب قائم ہوتے ہيں، باب کو فصلوں پر بانٹا جاتا ہے اوراس بات کى کوشش کى جاتى ہے کہ ايک باب کا مفہوم دوسرے باب ميں،ايک فصل کى بات دوسرى فصل ميں نہ آنے پائے ، تکرارکلمات،تکرار واقعات وغيرہ سے گريزکيا جائے - اندازکلام وہ اختيارکياجائے جو ہرقارى کے ليے قابل فہم ہو-الفاظ کے ماورا کوئى ايسى بات نہ رکھى جائے جس تک مصنف يا اس کے اپنے افراد کے علاوہ کسى کا ذہن نہ پہونچ سکے،اورقرآن مجيد ميں ايسي کوئى بات نہيں پائى جاتى ہے اس ميں نہ ابواب ہيں نہ فصول - نہ سرخى ہے نہ عنوان - نہ مطالب کے ايک رنگ ہونے کا لحاظ کيا گيا ہے اور نہ مفاہيم کى يکسانيت کا - ايک ہى مقام پرکہيں اصول کا ذکر ہے توکہيں فروع کا،کہيں واقعات ہيں توکہيں احکام، کہيں قصے ہيں تو کہيں عبرتيں -
انداز بھى وہ نہيں ہے جو ہرشخص کے ليے قابل فہم ہو بلکہ سوروں کے شروع ميں حروف مقطعات رکھ ديے ہيں جن کا سمجھنا کسى انسان کے بس کى بات نہيں ہے-
سارے مطالب کھل کربھى بيان نہيں کي ے گئے بلکہ پورى کتاب کى پشت پرايک تاويلى حقيقت رکھ دي گئى ہے جسے صاحب کلام جانتا ہے يا اس کے پڑھائے ہوئے افراد - اس تک رسائى کے ليے پاکيزگى نفس وکردار کى ضرورت ہے اس کے ادراک کے ليے راسخ فى العلم ہونا ضرورى ہے اس کى سمائى کے ليے وہ سےنہ درکار ہے جس ميں علم رکہ دياگيا ہے اس کے سمجھنے کے ليے وہ انسان درکار ہے جس کى خلقت مادى بعد ميں ہو اورتعليم قرآن پہلے ہو(علم القرآن خلق الانسان)
قرآن مجيد ميں سوروں کى تقسيم بھى ابواب وفصول کے اعتبار سے نہيں ہے بلکہ ايک ہى سورے ميں مختلف موضوعات ،مختلف مطالب کى وضاحت کى گئى ہے ظاہر ہے کہ بقريال عمران کا طولانى سورہ کسى ايسے موضوع کے ليے الگ نہيں کيا گياہے جوحمد يا توحيد ميں نہ پايا جاتا ہو بلکہ يہ تقسيم بھى کسى خاص مصلحت کے تحت کى گئى ہے-
سوروں کا مکى يا مدني ہونا بھى محل تصنيف کے اعتبار سے نہيں ہے کہ جو سورہ جہاں مرتب کيا گيا ہواس کا نام وہيں کے اعتبار سے رکھ ديا گيا ہو بلکہ اکثرمکى سوروںميںمدنى آيات رکھى گئى ہيں اوراکثرمدنى سورتوںميںمکى آيات کوجگہ دى گئي ہے-
ميراخيال ہے کہ قرآن مجيد کا يہ معجزہ نما اورمنفرد اندازجہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ يہ رسول اکرم کا کلام نہيں ہے،وہاں اس بات کا بھى محکم ثبوت ہے کہ اس کے جمع کرنے ميں کسي بادشاہ وقت ياخليفہ- رسول کا کوئى ہاتھ نہيں ہے کوئي بھى خليفہ يا بادشاہ اگر رسول کى وفات حسرت آيات کے بعد قرآن کريم کوترتيب ديتا تواس کى دو ہى صورتيں ہوتيں يا وہ ترتيب ٹھيک تنزيل کے مطابق ہوتى يا پھراس ميں وہ سليقہ برتا جاتا جوعموما تصانيف وتاليفات ميں برتا جاتا ہے حالانکہ جمع قرآن کى کسى ايک روايت ميں بھى اس کا ذکر نہيں ہے کہ جمع کرنے والوں نے صاحبان آيات و سورہ سے يہ سوال کيا ہو کہ يہ آيت کب اورکہاں،کس آيت کے پہلے اورکس ايت کے بعد نازل ہوئى ہے-
قرآن کريم کاعام کتابوں کے سليقے سے الگ ہونا اس قدر واضح اور بديہى ہے کہ اس کے ل- کسى ثبوت و برہان کي ضرروت ہى نہيں ہے-
غير رسول ياغير وحى الہى کے قرآن کومرتب کرنے کے عقيدے کامطلب يہ ہے کہ قرآن کى پورى ترتيب کو بدسليقگى کا نتيجہ سمجھ ليا جائے اور يہ کہا جائے کہ مرتب کرنے والوں کو نہ آيات کے نزول کاحال معلوم تھا اورنہ ا نھيں تاليف ہى کا کوئي سليقہ تھا- انھوں نے جس آيت کو جس جگہ چاہا رکھ ديا اورجس مضمون کوجہاںچاہا چسپاں کرديا- حالانکہ يہ بات کوئى بھى صاحب عقل وشعورمطالعہ- قرآن کرنے والا تسليم نہيں کرسکتا- قرآن کا سليقہ- ترتيب ،قرآن کا اندازبيان اس امرکا زندہ ثبوت ہے کہ اس کى جمع آورى ميں غير وحى کا ہاتھ نہيں ہے،”ان علےناجمعہ وقرآنہ“ اس کاجمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمے ہے-
يہ ضرورہے کہ بعض آيات اپنے محل پر نامناسب معلوم ہوتى ہيں ليکن ان دو تين آيات کے بظاہر بے محل ہونے کامطلب يہ نہيں ہے کہ جامعين قرآن کى فوق البشرصلاحيت تسليم کرلى جائے اوريہ کہا جائے کہ انہيں منتشرآيات کوجمع کرنے کا فوق البشرسليقہ حاصل تھا- يہ اور بات ہے کہ انہوں نے چند آيات کواپنى خاص غرض کے تحت ادھرسے ادھرکرديا ہے زيد بن ثابت جيسے نوجوان کے ل- ايسے بے پناہ علم کاعقيدہ ياخليفہ ثالث جيسے حضرات کے ل- ايسے اتھاہ ادراک کا تصور وہى انسان کرسکتا ہے جونہ قرآن کى فصاحت وبلاغت سے باخبر ہو اورنہ اس کى ترتيب وتنظيم کى شان اعجازسے اورنہ ان حضرات کى تاريخى صلاحيت سے باخبر ہو-
اس موضوع کى تفصيل توتحريف قرآن کى بحث ميں آئے گي، يہاںصرف يہ واضح کرنا ہے کہ قرآن کا اندازترتيب اورسليقہ تنظيم عام تصنيف وکتب جيسا نہيں ہے وہ کتاب ہے ليکن انسانى اصطلاح ميں نہيں بلکہ قرآنى اصطلاح ميں- وہ مجموعہ ہے ليکن انسانى ترتيب وتاليف کے اعتبار سے نہيں بلکہ سماوى ترتيب وتاليف کے اعتبارسے-
يہ کتاب ہے : الم ذلک الکتاب لاريب فيہ
يہ نورہے : قدجائکم من اللہ نوروکتاب ومبين
يہ قرآن ہے : ان ھذاالقرآن يھدي للتى ھى اقوم
يہ فرقان ہے : الذى نزل الفرقان على عبدہ
يہ آيات بينات ہے : بل ھى آيات بينات فى صدورالذين اوتوالعلم
يہ تنزيل ہے : تنزيل العزيزالحکيم
يہ قول ہے : انہ لقول رسول کريم
يہ ذکر ہے : انانحن نزلناالذکروانالہ الحافظون
يہ ہدى ہے : ھدى للمتقين
www.al-hadj.com
متعلقہ تحريريں:
قرآن ہدايت دينے والي کتاب