قرآن کا تبلیغی انداز
اس وقت ھمارے سامنے بھت بڑے بڑے چیلنج ھیں۔ طرح طرح کے فراعین سے مقابلہ ھے جو زمین خدا پر طغیان و سرکشی کر رھے اور گمراھی پھیلا رھے ھیں اور قرآن کا حکم وھی ھے جو موسیٰ و ھارون کے لئے تھا یعنی ” اذھب الی فرعون انہ طغیٰ “ یعنی اے موسیٰ و ھارون !تم فرعون کی طرف جاؤ کیونکہ وہ بغاوت اور سر کشی پر اتر آیا ھے: ” و قولا لہ قولاًلینا “لیکن اگر فرعون کے پاس بھی تبلیغ کے لئے جانا ھے تو نرمی کے ساتھ تبلیغ کرنا لھذا اے موسیٰ و ھارون! تم اس سے نرمی سے گفتگو کرنا ۔ یہ سب قرآن کا عالمی پیغام ھے ۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پھونچا کر اس سے اپنی بات نھیں کھی جا سکتی۔ ایک نا فرمان بچے کو اگر محبت دی جائے تو وہ آپ کی بات سننے کے لئے تیار ھو جائے گا ۔ ھمارے سامنے انسان کی تربیت کا مسئلہ ھے ۔ اسلام تمام انسانوں کی تربیت کرنا چاھتا ھے اور اس کے لئے بڑے اقدام کی ضرورت ھے ۔ امام حسین (ع) اگر کھتے کہ مجھے چھوڑ دو ،مجھے نمازیں پڑھنے دو ، مجھے عبادتیں کرنے دو تو یزید امام حسین (ع) کا مخالف نہ ھوتا بلکہ خوش ھوتا اور اعلان کرتا کہ ان سے بڑا پرھیزگار کوئی نھیں ھے لیکن امام حسین (ع) نے فرمایا :” انا اھل بیت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکة بنافتح اللّہ بنا ختم و یزید رجل فاسق ،شارب الخمر ، قاتل نفس المحرمة ، معلن بالفسق “ ھم اھل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمدو رفت کا مقام ھیں ، ھمارے ذریعے خدا نے آغاز کیا اور ھمارے ھی ذریعہ اختتام ھو گا اور یزید شارب خمر ، قاتل نفس محرمہ اور کھلے عام فسق کرنے والا ھے۔ پھر فرمایا: ” و مثلی لا یبایع مثلہ “ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نھیں کر سکتا ۔ امام یہ نھیں فرما رھے ھیں کہ میں یزید کی بیعت نھیں کر سکتا بلکہ فرمایا مجھ جیسا یزید جیسے کہ بیعت نھیں کر سکتا ۔ اس کا مطلب ھے کہ حسینیت اور یزیدیت کا یہ سلسلہ جاری رھے گا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ھے ۔
https://moballegh.net
متعلقہ تحریریں:
فہم قرآن کے لۓ چند شرائط
تلاوت کی ذمہ داری